کالم

اسلام، الحاد اور مولوی

جون 18, 2019 8 min

اسلام، الحاد اور مولوی

Reading Time: 8 minutes

ایک صاحب، جانے زندہ ہیں یا مر کھپ گئے، ابن الورق کے قلمی نام سے انہوں نے ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ 80 کے عشرے یعنی جب انہوں نے کتاب لکھی، تک دنیا کے جس کونے کھدرے میں کسی بھی شخص نے اسلام پر کوئی بھی اعتراض یا تنقید کر رکھی، حضرت نے اسے کتاب کا حصہ بنا لیا۔ جہاں کہیں مصالحہ کم محسوس ہوا وہاں حسب ذائقہ نمک، مرچ اور لیموں کا چھڑکاؤ اپنے پاس سے کر ڈالا۔ یوں آپ اس کتاب کو "اینٹی اسلام انسائیکلو پیڈیا” بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد صرف ڈاکنز ہی بچتا ہے اور اسے میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ اگر کتاب کا ساٹھ ستر فیصد حصہ لغو اور مضحکہ خیز اعتراضات پر مشتمل ہے تو بہت ٹھوس اور مضبوط تنقید بھی پچیس تیس فیصد بنتی ہے اور یہ بندے کو ہلانے کیلئے کافی ہے۔ ویسے جو مولوی انگریزی لکھنا پڑھنا جانتے ہیں انہیں یہ لازمی پڑھنی چاہئے، بیٹھے بٹھائے ایمان ٹیسٹ ہو جائے گا اور شاید بہت سوں سے ہماری جان ہمیشہ کیلئے چھوٹ جائے۔

اچھا جب یہ کتاب ہتھے چڑھی ان دنوں منافقوں والی نماز بھی شروع کر رکھی تھی۔ یعنی اپنے حجرے ہی میں مصلیٰ بچھا رکھا تھا اور سنت غیر مؤکدہ اور نوافل مائنس کر کے باقی جو کچھ بچتا ہے وہ جلدی جلدی پڑھ کر اپنے تئیں عنداللہ ماجور ہو جایا کرتا تھا۔ ابن الورق نماز پڑھنے سے نہ روک پایا اور اللہ میاں نے کبھی اس شدید کافرانہ کتاب کے مطالعے سے نہیں روکا اس لئے دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ظہر پڑھ کر دین پہ اعتراضات کا مطالعہ شروع کیا تو عصر کا وقت ہو گیا۔ آٹھ سجدے کر کے سلام پھیرا اور پھر کتاب پہ چڑھائی کر دی۔ مغرب کے بعد میرا مووی ٹائم شروع ہو جاتا ہے- یوں پانچ چھ دن میں کتاب ختم کر ڈالی اور پھر بھی جوں کا توں ہی رہا۔ اب اگر آپ اسے میرے ایمان کی مضبوطی سمجھیں تو یہ آپ کی کم عقلی کی دلیل ہو گی۔

معاملہ یہ ہے کہ ایک تو سال ڈیڑھ سال کی عمر میں نونو کٹوا بیٹھے۔ اب ملحد ہو کر بھی یہی کٹا ہوا چھنکنا بجانا ہے تو بندہ مسلمان ہی کیوں نہ رہے؟ دوسرا یہ کہ بیشتر اعتراضات اور تنقید میں بارہ چودہ برس پہلے ہی پڑھ چکا تھا اور اس کے کچھ ٹھوس اور مدلل جوابات بھی۔ کئی سوالیہ نشان اب بھی باقی ہیں اور شاید مرتے دم تک باقی ہی رہیں، مگر مجھے ان سے فرق نہیں پڑتا۔ اعمال تو میرے آپ نہ ہی جانیں تو بہتر ہے مگر عقیدے کی حد تک میں نہایت "مطمئن بے غیرت” ہوں، الحمدللہ۔

اب یہ پڑھ کر آپ کو شدید صدمہ ہوگا کہ اوپر تو میں نے صرف تمہید باندھی ہے، اصل کہانی تو حضرات گرامی اب شروع ہونے جا رہی ہے- تھوڑا قریب قریب ہو جائیں، چھوٹے بچوں اور مولویوں کو پیچھے کر دیں، شاباش۔

2004-5 کی بات ہے شاید، نیٹ پہ سرفنگ کرتے ایک انصار ڈاٹ او آر جی نامی ویب سائٹ پہ جا پہنچا۔ یہ افریقی عربوں نے بنا رکھی تھی اور اس کا واحد مقصد شیعوں کو گندا کرنا تھا۔ ایرانیوں نے اس کے جواب میں آنسرنگ انصار ڈاٹ او آر جی کا مورچہ سنبھال رکھا تھا اور وہ سنیوں کی مٹی پلید کیا کرتے تھے۔ ہمارے فیسبک مباحثے آج بھی اس معیار کی گرد کو نہیں چھو سکے جو عربوں اور ایرانیوں کا اس وقت تھا۔ دونوں طرف نہایت ثقہ عالم کتاب، سنت اور ایک دوسرے کی روایات کے حوالے دے کر ایسے ایسے تیر چلاتے تھے کہ جسے لگتا تھا وہ بھی ایک بار مرحبا پکار اٹھتا تھا۔ گالی گلوچ اور دھمکیاں جو ہم جنوبی ایشیائیوں کی خصلت ہے وہاں ناپید تھیں۔ میں عمر بھر شیعہ سنی تنازعے کی تہہ تک پہنچنے کو ترستا رہا تھا اس لئے میرے لئے دونوں ویب سائٹس کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھیں۔ دو نوکریاں اسی ریسرچ کی نذر ہو گئیں کہ کام پہ جانے کی بجائے عرب و عجم کی معرکہ آرائیاں دیکھتا رہتا تھا۔

خیر ایک روز فریقین کو ایک تیسری ویب سائٹ کی مذمت میں یک زباں پایا۔ فرق یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد کو اس ویب سائٹ کی گستاخیوں کی بنیادی وجہ قرار دے رہے تھے۔ اب لازم تھا کہ اس تیسری ویب سائٹ کو بھی چھانا جائے۔ یہ عیسائی مشنریوں کا تخلیق کردہ شاہکار تھا جو ان دونوں ہی کی طرح بہت سلیقے اور شائستگی کے ساتھ اسلام کے بخیے ادھیڑنے میں مصروف تھا۔ بدقسمتی سے اس کا نام ذہن میں نہیں آ رہا۔ دین کے خلاف اس وقت تک کافی کچھ پڑھ لیا تھا مگر معلومات کا جو خزانہ وہاں ملا وہ گوہر نایاب سے کیا کم ہوگا۔ یہیں کبھی کبھار ملحدین بھی آ نکلتے تھے اور اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائیت پر بھی دو حرف بھیج کر سٹک لیا کرتے تھے۔ انہی میں سے کسی کے عطا کردہ لنکس نے ڈاکنز سے متعارف کرایا۔ اس کے علاوہ بعض وڈیوز، کچھ بہت اچھی ڈاکومنٹریز، کچھ بہت شاندار مضامین پڑھنے کو ملے جو سب کے سب مذاہب کی مخالفت میں تھے، بیشتر کا ہدف ابراہیمی مذاہب اور ان میں سے بھی اکثر کا ہدف اسلام تھا۔

سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ عیسائی پادریوں کے خلاف ایرانی شیعہ اور عربی سنی ہمنوا ہو جایا کرتے تھے، جبکہ الحاد کے خلاف اسلام اور عیسائیت کا اتحاد بن جایا کرتا تھا۔ گویا مشترکہ خطرہ باہمی اختلافات پس پشت ڈالنے میں ہمیشہ کی طرح کامیاب رہتا تھا۔ میں نے جو تین چار سال عقائد کے اس سمندر میں ڈوبتے، ابھرتے گزارے انہوں نے نہ صرف مجھے ایک مشاق تیراک بنا دیا بلکہ زندگی کے کچھ بہت اہم اور قیمتی سبق بھی سکھائے۔

اختلاف خواہ کتنا ہی گھٹیا، سطحی، بے معنی اور مضحکہ خیز کیوں نہ ہو یہ ہر حال اور ہر صورت میں نعمت ہوا کرتا ہے۔ یہ آپ کو اپنے موقف، اپنی سوچ اور اپنے عقیدے کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ آپ کو کچھ نا کچھ ایسا بتاتا ہے جو آپ پہلے سے نہیں جانتے۔ یہ آپ کو معلومات کے بہتر ذرائع تک رسائی کا موقع دیتا ہے- یہ آپ کو اپنے ہم خیالوں سے بھی ملواتا ہے اور آپ کو اپنے مخالفین کو بھی بہتر جاننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لئے اظہار رائے کی آزادی کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے- اسی لئے اسے خودساختہ پابندیوں سے ممکنہ حد تک بچانے کی کوشش کی جاتی ہے-

پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی میں دو سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ملٹری اور ملا۔ ارادہ آج اسٹیبلشمنٹ سے دو دو ہاتھ کرنے کا تھا مگر مولوی کا حق فائق ہے۔

پیو ریسرچ کے 2015 کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا میں عیسائیت کے ماننے والے اکتیس فیصد، مسلمان چوبیس فیصد اور ملحدین سولہ فیصد ہیں۔ یعنی تیسرا بڑا (غیر) مذہبی گروہ الحاد ہے۔ اس جائزے میں بھی اسلامی ممالک کی کل مسلم آبادی کو اسلام کا پیروکار فرض کیا گیا ہے- ورنہ شاید ملحدین اور مسلمانوں کی تعداد میں فرق بہت زیادہ نہ رہے۔

میرے آپ کے اردگرد، ہمارے جاننے والوں میں، سوشل میڈیا پر ہمارے فرینڈز اور فالوورز میں سینکڑوں ہزاروں ایسے موجود ہیں جو کسی مذہب، کسی خدا کے قائل نہیں ہیں۔ مگر معاشرتی دباؤ اور سماجی تعلقات ٹوٹنے کے ڈر سے شناختی کارڈ کی حد تک مسلمان بنے بیٹھے ہیں۔ ان بیچاروں کو عید شب برات پر نماز بھی پڑھنا پڑتی ہے اور بعض کو تو روزے بھی رکھنا پڑ جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ زبردستی ان لوگوں کو اسلام کے دائرے میں گھسیڑے رکھنے کا ہمیں، ہمارے دین یا ہمارے خدا کو کیا فائدہ ہے؟

خود سے کبھی کسی کے ساتھ عقیدے پر بات نہیں کی، مگر دو چار مرتبہ ان حضرات سے گفتگو کا موقع ملا۔ فیسبک پر تو ان کے دلائل یا اعتراضات پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ ہمارے دیسی ملحد عجیب قابل رحم قسم کی مخلوق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ذاتی دوست کے متعلق پتہ چلا کہ بھائی الحاد کی طرف مائل ہیں۔ ملاقات ہوئی تو مذہب کے خلاف ان کے دلائل سن کر ترس آیا، الحاد پہ اپنے وسیع مطالعے کی روشنی میں انہیں کچھ فردر ریڈنگ ریکمنڈ کر آیا۔ بندے نے کافر ہونا ہے تو ڈھنگ سے ہو، یہ کیا بات ہوئی کہ کعبہ ادھر بھی تھا اور ادھر بھی اور یہاں بھی اور وہاں بھی۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں آخر روز بروز ان کی تعداد بڑھتی کیوں چلی جا رہی ہے، یہ کبھی سوچا آپ نے؟

اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں مذہب پر آزادانہ مباحث اور مکالمے پہ غیر اعلانیہ پابندی ہے اور یہ غیر اعلانیہ پابندی مولویوں نے لگا رکھی ہے- ایک تو پاکستان میں اتنی بھینسیں نہیں پائی جاتیں، جتنی مقدس گاؤں کے کلے انہوں نے ہماری پشت میں گاڑ رکھے ہیں۔ اس کی حرمت، اس کا تقدس، یوں کہا تو فلاں کے آنچل پہ آنچ آئے گی، جو ایسا بولا تو فلاں کی دستار گر پڑے گی۔ ہر فرقہ ہزار بارہ سو سال پرانے کسی ایک گروہ کا خود ساختہ ٹھیکیدار بن کے بیٹھا ہوا ہے- باہم بھی برسرپیکار رہتے ہیں اور ہماری جانوں کا بھی عذاب بنے ہوئے ہیں۔ صحابہ، اہل بیت، پھر تابعین، پھر تبع تابعین، پھر آئمہ کرام کسی کے چار، کسی کے بارہ، پھر باقی جو کوئی بچتا ہے وہ سلف صالحین میں شامل ٹھہرتا اور حد تو یہ کہ اپنے اساتذہ کرام تک۔ ناموسوں کا ایک گٹھڑ ہے پورا جو امت کے سر پہ لاد دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے بوجھ تلے دبی رہے اور سرے سے مذہب پر بات ہی نہ کر سکے۔ مذہب پہ بات کریں گے تو آپ کے ایک ایک قدم تلے بارودی سرنگ بچھی ہے، بچت کی ایک ہی صورت ہے کہ جو یہ مولوی بھوتنی کے کہتے ہیں چپ کر کے اس پہ سر ہلاتے رہو۔ عالم اسلام میں جس کو بھی مرے تین چار سو سال گزر جاتے، وہ مقدس گائے بن جاتا ہے۔ اطمینان کی بات یہ کہ آج میری اس پوسٹ پہ مولوی جتنی مرضی گالیاں دے دیں، تین چار سو سال بعد انہی کی نسلیں میری ناموس کا بل پاس کرا رہی ہوں گی۔

اور مولویوں کے پاس اب اس کے سوا کہنے کو رہا ہی کیا ہے- پچھلے تیس برس میں پاکستان میں آپ نے کفر کے فتووں، گستاخی کے الزامات، فلاں فلاں کی ناموس کے بل کے علاوہ ان کے منہ سے اور کیا سنا ہے؟ مکتبہ فکر کوئی بھی ہو، اس کی اسی فیصد فقہ اس کے اسی فیصد پیروکاروں کیلئے عملاً بیکار ہو چکی ہے- کیونکہ اکیسویں صدی جو سوال اٹھا رہی ہے اس میں ان کے حل موجود نہیں۔ نوبت سروگیٹ مدرز اور سپرم ڈونرز پہ آن پہنچی اور فقہ ہمیں بتا رہی کہ تربوز میں جلق مارنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں۔

ایک صاحب نے نیا نیا اسلامی تاریخ کا مطالعہ شروع کیا، ایک معروف عالم سے شناسائی تھی۔ چونکہ ہماری تاریخ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے کے واقعات سے بھری پڑی تو وہ اپنے سوالات لے کر ان عالم دین کے پاس چلے جایا کرتے تھے۔ بیشتر مواقع پر جواب یہی ملتا تھا کہ ایسا مت کہو، یوں مت سوچو، ہمیں کیا، آپ مکلف نہیں ہیں، حد ادب ورنہ ایمان جاتا رہے گا۔ ایک روز وہ صاحب اٹھے اور بولے ” جا اوئے مولوی پ۔ی! میں تجھے مانتا نہ تیرے خدا کو جس نے اتنے سنسر لگا رکھے” جب مجھے ملے تو انہیں چھ ماہ ہوئے تھے تجدید ایمان کئے ہوئے۔

اوپر سے ان کی منافقت۔ وہی بکواس اپنے فرقے کا مولوی کرے گا تو آنکھوں میں آنسو بھر کر اس کی صفائیاں پیش کریں گے، اس کی توبہ کو پورے عالم اسلام کیلئے کافی قرار دیں گے۔ وہی بات کوئی عامی کہہ دے یا مخالف فرقے کا مولوی تو قابل گردن زنی اور توبہ کا حق بھی ختم۔ جیسے کلمات کہہ کر جنید چھ سال سے بغیر ٹرائل کے جیل کاٹ رہا ویسے ہی ملک کا وزیراعظم کہہ دے تو او جی بڑا پکا ٹھکا مسلمان ہے، آپ کو سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ الو کے پٹھو سمجھنے میں تمہیں غلطی ہو رہی ہے، تمہاری شریعت بندہ دیکھ کے بدل جاتی ہے-

اپنے انہی خودساختہ عقائد پہ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں اور جب مر جاتے ہیں تو بھی ہماری جان نہیں چھوڑتے۔ ان کی یہ نام نہاد شہادت بھی ہم پر احسان ہوتی ہے۔ مرید عباس یزدانی کربلا کے شہداء کے ساتھ اٹھے گا اور جھنگوی کے خون سے انقلاب آئے گا اور قادری کا جنازہ ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ او بیہہ جا اوئے مولوی بس کر دے، چھنکنا انقلاب آئے گا تیرے خون سے اور دھیلے کا فیصلہ کرے گا تیرا جنازہ۔ مریں یہ اپنی حرکتوں سے اور ٹرینڈ ان کیلئے ہم چلائیں۔

جب تک ہماری مساجد جہلاء کے ان گروہوں کے قبضے میں رہیں گی، ملحدین بڑھتے رہیں گے اور مجھ جیسے اپنے حجروں میں نمازیں پڑھنے پہ مجبور رہیں گے۔ ہمیں اپنے دین کو مولویوں کے شکنجے سے آزاد کروانا ہے، اپنی زبان اور قلم کے ذریعے۔ اس دور کا جہاد یہی ہے-

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے