کالم

پاکستان میں ”میڈیکل کا ریپ“

جون 20, 2019 3 min

پاکستان میں ”میڈیکل کا ریپ“

Reading Time: 3 minutes


محمد کاشف

میرا ذاتی قول ہے کہ گرمیوں میں سڑک پر صرف دو مخلوقات ملیں گی۔ کسی درخت کے نیچے کتا یا سڑک پر میڈیکل ریپ۔ دونوں کی بے عزتی اکثر ایک لیول کی ہی ہوتی ہے۔ زندگی کی دو سال میں نے میڈیکل ریپ اور دوائیں پیچنے کا کام بھی کیا اور ساتھ ساتھ پرائیویٹ ٹیوشن بھی جاری تھی۔ حالات کچھ اچھے ہونے پر میں ایپک ٹیٹس کے قول پر عمل پیرا تھا۔ کھانا، پینا، سونا اور جم، اور ظاہر ہے کام، پکے ہم سفر تھے۔


میڈیکل ریپ کا کام اصل میں جگہ جگہ ڈاکو نما ڈاکٹروں کے ہاتھ ذلیل ہونے کا ہے۔ چھ مہینے بعد پتہ چلا کہ اصل دھندا کیا ہے۔ ڈاکٹر کو مال دینا ہے، میڈیکل سٹور والے کو رشوت (سیمپل وغیرہ) لازمی ہے۔ دھندا ہے۔ کرنا تو پڑے گا۔ میری پہلی کمپنی کا نام PCW تھا۔ جیٹی پار، یرقان کے مریضوں کے لئے سیریب، کپسول اور انجیکشن فام میں دستیاب تھا۔ یہ ہماری فلیگ شپ دوائی تھی اور میرے ذمے تھی۔ گوجرانوالہ ڈویژن ہیپاٹائٹس کے مرض کا گھر ہے۔ چمڑے کی فیکٹریوں اور صنعتوں کا زہریلہ پانی، کاشت کے کیمیکلز وغیرہ اس ڈویژن کا زیر زمین پانی زہریلہ کر چکے ہیں۔


پہلے چھ مہینے، خوب ایمانداری کا بھوت اور کام کی لگن۔ پورے شہر کا ایک ایک کونا چھان مارا۔ میرے پاس وزیرآباد، حافظ آباد، کامونکے وغیرہ اور اطراف کے سارے گاوں بھی شامل تھے۔ پورے شہر میں نے ہر نکڑ میں چھپے کوئیک ( کمپوڈر نما جعلی اور جان لیوا ایٹم) اور اصلی ڈاکٹر کو کھوج ڈالا۔ ایسے ایسے نیک اور پارسا مسیحا، الف ننگے، اپنی اصل شکل میں سامنے آ کھڑے ہوئے کہ شیطان بھی مظلوم لگنے لگا۔ ٹیسٹوں اور فیسوں کے نام پر لوگوں کو بار بار مرتے دیکھا۔ پتہ چلا ۔۔۔۔۔۔ ہسپتال Ali lily کی دین ہے۔ اینٹی بائیوٹک کسی اور کمپنی کی نہیں لکھی جا سکتی۔ زیادہ پکا کام کرنا ہو تو صرف ڈاکٹر کے اپنے میڈیکل سٹور پر دوائی رکھوائیں، مریض سارے شہر میں مارا مارا پھرے گا۔ پھر واپس۔ اور میڈیکل سٹور والا کہے گا۔ ایک دفعہ سمجھ نہیں آئی۔ کہا تھا کہ یہ دوائی اور کہیں سے نہیں ملتی۔ جتنا بڑا ڈاکٹر اتنا بڑا دام۔ فلاں ڈاکٹر کو فلاں کمپنی نے دبئی بیجھا۔ فلاں ڈاکٹر شراب کے بوتل کے بغیر بات نہیں کرتا۔

لیڈی ڈاکٹر، واللہ، یہ عورتیں ساری نہیں، مرد ڈاکٹروں سے بھی ظالم ہیں۔ ہر پیدائش صرف بذریعہ آپریشن۔ بس اور کچھ نہیں۔ عورتوں کی فرج میں کپڑا ٹھونس دیا کہیں بچہ نارمل نہ ہو جائے۔ محض سوکھا دودھ، اچھے ڈبے میں پیک، انہیں میں نے اپنی آنکھوں سے پیسے لے کر مریضوں کو تھماتے دیکھا۔ کنواری لڑکیوں کے کیس، سٹاف اور مریضوں کے تعلقات اور سٹاف کی آپس کی داستانیں، ساری نہیں تو بہت سی نرسوں کو امیر مریضوں اور ڈاکٹروں کا شکار کرتے دیکھا۔ گندا ہے پر دھندا ہے یہ۔ پھر میں بھی کاریگر ہو گیا۔ آخر کار یہ نام نہاد مسیحا ایک نوکیا 3310 پر خود میں نے اپنے ہاتھ سے خرید لیے۔جیٹی پار سیرپ سارے پنجاب میں سب سے زیادہ میں نے بھیجا۔ سترہ ہزار کا چیک بونس میں ملا۔ پولٹری فارم والوں کو بھی یہ سیرپ بھیج دیا۔ ان کی مرغی یہ پی کر زیادہ خوراک کھاتی تھے۔ جانوروں کی دوائیاں انسانوں سے مہنگی ہیں۔

حکیموں کو اپنی ایک گولی vigrol بیچنی شروع کی، سارے حکیموں کی اوقات بھی سامنے آ گئی۔ میری گولی پیس کر کپسول میں اور مرض جنسی طور پر مکمل یس۔ ایک روپیہ میں خریدی اور اس الو قوم کو ایک چالاک جاہل نے لگے ہاتھ آگے بیچ ڈالی۔ یہ گولی بھی میں نے سب سے زیادہ بیچی۔

سیول ہسپتال ہر منگل، بدھ اور جمعرات والا دن میدان کربلا ہوتا تھا۔ اس دن او پی ڈی ہوتی تھی۔ مریضوں کا ایک جہاں، یوں لگتا تھا جیسے ساری دنیا ہی بیمار ہے۔ نہیں۔ نہ صرف بیمار ہے بلکہ مجبور، غریب، بے بس اور لاچار ہے۔ مریض کے ساتھ آئی خواتین کو اپنی گناہ گار آنکھوں سے ہسپتال کے ملازم کو ہی اپنی عظمت پیچتے دیکھا۔ میڈیکل سٹور والے کو پانچ روپے نہ ہونے پے پستان چیک کرتے ہوئے دیکھا۔ ان پتھر کی آنکھوں کو دیکھا، جو میرے سامنے اپنے تن سے کپڑا اٹھاتے ہوئے ایک لمحہ بھی نہیں ہچکچائیں۔
دو سال میں ہی تنگ آ گیا۔ بے بسی، لاچاری اور حقیقی زندگی کا ننگا ناچ مزید برداشت سے باہر تھا۔ اپنے ابا کی بیماری اور دوائیوں کے ہاتھوں بربادی کی داستان میں خود تھا۔ آئے دن اداس ہونا شاید میری طبعیت میں نہیں ہے یا اس دکھ بھرے جہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ سو ہمیشہ کے لئے ہی اس شعبے کو چھوڑ دیا۔
محمد کاشف/ فیس بک

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے