کالم

کوے پیاسے کیوں مریں

جون 24, 2019 2 min

کوے پیاسے کیوں مریں

Reading Time: 2 minutes

سوشل میڈیا پر ہی ایک ایسی تصویر دیکھی جس پر بات کئے بنا رہ نہ پائی۔ ایک ایسا مسئلہ جس سے ہم سب براہ راست متاثر ہیں۔ زندگی کیلئے نہایت اہم جزو، یہ تصویر آپ کے ساتھ بھی شئیر کررہی ہوں۔
اس تصویر میں مصور نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ سبق آموز کہانی ”پیاسا کوا’ کے حالیہ سیزن کی منظر کشی کی ہے جس میں موجودہ خطرناک صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

نئی کہانی میں کوے نے اپنی پیاس بجھانے کیلئے کنکر سے گھڑا تو بھر دیا پر اس بار اسے پانی نصیب نہ ہوا اور کوا پیاسا ہی دم توڑ گیا، پہلے اس کہانی سے یہ سبق دیا جاتا تھا کہ صبر، ہمت، کوشش اور محنت سے آپ پھل پالیتے ہیں لیکن اب ہمیں اپنے وسائل کو بچانے کیلئے بھی اس کہانی سے سبق لینا ہوگا کیونکہ اس بار زندگی کو بچانے کیلئے گھڑے میں پانی موجود ہی نہ تھا۔ اسی المناک صورت حال کا ہم سب کو سامنا ہے۔


پانی زندگی ہے، پانی ضائع نہ کرو ، پانی نعمت ہے ان باتوں کی تلقین ہم ایک دوسرےکو کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کر تےاور قطرہ قطرہ کر کے بہا دیتے ہیں۔ پانی جو کسی دور میں ہرگھرپہنچا ہوا تھا اب نایاب ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 150 چھوٹے بڑے ڈیم ہیں مگرپانی کا مسئلہ پھر بھی بڑھتا جارہا ہے۔

دوسرے شہروں کی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی پینے کا پانی نایاب ہو رہا ہے۔ یہاں کے باسی شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔گھریلو استعمال کے لئےبھی پانی خریدنے پرمجبور ہیں۔اور پانی کی خاطر نقل مکانی کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

اسلام آباد جسے شہر اقتدار بھی کہتے ہیں، صاحب اقتدار کی توجہ کا منتظر ہے، سملی ڈیم اور خان پورڈیم سے مجموعی طور پر 63 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جارہا ہے جبکہ شہر کو 110 ملین گیلن یومیہ ضرورت ہے، دوسری طرف کئی سالوں سے غازی بروتھا پروجیکٹ بھی سی ڈی اے اور ایم سی آئی کی آپس کی لڑائی کی نظر ہوگیا،اس پراجیکٹ کے ذریعے راولپنڈی اور اسلام آباد کو 200 ملین گیلن پانی ملنا تھا۔


پاکستان میں پانی کی کمی کی چند بڑی وجوہات ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی، بارشوں کی کمی، بڑھتی آبادی اور پانی بچانے کے انتہائی ناقص طریقے ہیں۔ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے نظام اور انتظام دونوں کا فقدان ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی جانب سے فنذز کی عدم دستایبی سے واٹر سپلائی کی لائنوں کی مرمت بھی کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے اور رہی سہی قصر غیر قانونی سروس اسٹیشنز نے پوری کر دی ہے۔


اس خوفناک صورت حال پر قابو پانے کیلئے انفرادی سطح پر مجھے اور آپ کو بھی جس قدر ممکن ہو سکے پانی کے محفوظ طریقہ استعمال کو اپنانا ہو گا ۔ ہم سب کو مل کر اس بات پر بھی توجہ کرنا ہو گی کہ اگر پانی کو نہ بچایا تو ہمارے گھڑے بھی سوکھ جائیں گے، جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے