کالم

چار شادیوں کا اصل فلسفہ

جون 30, 2019 4 min

چار شادیوں کا اصل فلسفہ

Reading Time: 4 minutes

(کانسینٹ (consent)، ایک سے زیادہ شادیوں، اور marital rape پر میرے خیالات)

کرہ ارض پر ہر وہ نظریہ جو تھوڑے بہت بھی سیاسی مضمرات رکھتا ہے (مثلاً لبرل ازم، فیمن ازم، وغیرہ) وہ انسانی زندگی کی تقریباً ہر جہت پے اثر انداز ہو کر اپنی بقا اور مزید ترقی کے بیج بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس طرح کے تمام نظریات دھیرے دھیرے پوری انفرادی و اجتماعی انسانی زندگی اور معاشرتی نظام کو اپنے فکری فریم ورک کے تحت تشکیل دے کر خود کو برقرار رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اسلام کی مثال لیں۔ پہلے یہ انسان کو ایک خدا تک لے کر آتا ہے۔ جب آپ ایک خدا کو مان لیں تو اس ہی کی عبادت واجب ٹھہرتی ہے (اور تمام احکام ماننا عبادت کا لازمی جزو ہے)۔ ہر حکم انسانی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ نکاح کی مثال لے لیں۔ اس کے نتیجے میں بننے والا رشتہ پورے انسانی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ نئی نسل اسی طرح پیدا ہونی ہے، اس کی پرورش کا بہتر بندوبست اسی کے تحت ہونا ہے، انسان کی جنسی توانائی (جو کہ اس کا طاقتور ترین انسٹینکٹ ہے) کا مُثبت اخراج اسی طرح ممکن ہونا ہے۔

اسلامی نکاح کا معاہدہ اور اس سے برآمد ہونے والے تمام نتائج ان ہی باتوں کو مد نظر رکھ کر دیکھے جانے چاہئیں۔ مرد کو چار شادیوں تک کی اجازت جبکہ عورتوں کو صرف ایک تک محدود کرنا، مردوں کو سارے خرچوں کا ذمہ دار بنانا، عورتوں کو تلقین کہ شوہر جب پاس آنا چاہے تو انکار نہ کریں (گویا عورت کے “کانسینٹ” کو مرد کی طلب کے تابع کرنے کا بندوبست)، علیحدگی کے فیصلے میں مرد کو بااختیار بنانا مگر اس کا مالی بوجھ بھی اسی پر ڈال دینا۔ان سے ہوتا یوں ہے کہ مرد و زن کا ایک معاہدے کے تحت ساتھ رہنا بہت آسان و ضروری جبکہ علیحدہ ہونا دشوار و نقصان دہ بن جاتا ہے۔ اس میں برابری (فیمن ازم) کی بھی نفی ہوئی، کنسینٹ و آزادی (لبرل ازم) کی بھی نفی ہوئی۔ کیسے؟ دیکھیے۔

چار شادیوں کی مرد کو اجازت جبکہ عورت کو صرف ایک، برابری کی نفی ہے۔ نکاح کے معاہدے میں شوہر کو بیوی کی تمام تر sexual faculties (جنسی استعداد) پر مالکانہ حقوق (ownership rights) ملتے ہیں جبکہ بیوی کو نہیں ملتے، اس لیے مرد آگے پھر نکاح کر سکتا ہے عورت نہیں۔ پھر بیوی کا “No” کہہ کر مرد کو سائیڈ پے کیے رکھنا ناپسندیدہ ترین فعل (حدیث سے ثابت) ہونا جدید consent کے کانسیپٹ کے مخالف ہے، بیوی کے مُوڈ کو شوہر کی طلب (desire) سے زیادہ اہم نہیں مانا گیا۔ اس آزادی و برابری سے محروم کر کے عورت کو مالی بوجھ اٹھانے سے مکمل آزاد کیا گیا ہے۔ جبکہ چار بیویاں (جن کی sexual faculties خالصتاً اس کے لیے ہی موجود ہوں) وہ ترغیب (incentive) ہے جو مرد کو اپنی جنسی آزادی نکاح کر کے محدود کرنے، اور سارا خرچ اٹھانے کے بدلے دیا گیا ہے۔ اس سارے بندوبست سے اسلامی نکاح ایک بہت مضبوط اور متوازن (جس میں حقوق و آزادیاں بڑی خوبی سے فرائض و ذمہ داریوں سے بیلنس کی گئی ہیں) معاہدہ بن کر ابھرتا ہے جو مہذب معاشرے کے استحکام اور اللہ کی منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کی ضمانت بن سکے۔

اب اس میں آپ ذرا شوشا چھوڑ کر دیکھیں برابری کا، لبرل لیول کی آزادی کا، consent کی مرکزیت کا۔ عورت کہے کہ میں ایک کروں تو مرد چار کیوں کرے، آپ برابری کر کے چار پے پابندی عائد کر دیجیے۔ پھر عورت کہے کہ میرا مُوڈ نہیں تو یہ کیسے مجھے چھوئے، چلو اس پے marital rape کا مقدمہ کرو۔ نیتجے میں پھر مرد بھی سوال پوچھے گا، کہ خرچہ سارا میں کیوں اُٹھاؤں؟ یہ بھی باہر نکلے کام کرے۔ پھر جب عورت ضرورت کے تحت نہیں بلکہ برابری کے اصول کی ایک لازمی شرط کے تحت باہر نکلے تو مرد پوچھے گا کہ گھر والی کا اگر مُوڈ نہیں اور میری ضرورت ہے تو یہ باہر والیوں سے وقتی طور پر کام چلا لینے میں کیا عیب ہے؟ علیحدگی کے فیصلے برابری پر ہوں اور فنانشل برڈن بھی مرد پر آئے، مرد گھر کا خرچہ بھی بڑھ کر کرے، اپنی فِطری آزادی بھی بس ایک کے حق میں قُربان کرے اور اس میں بھی NO اور marital rape کے مقدمے کا احتمال رہے، پھر بچوں کی ذمہ داریوں میں بھی بندھے، تو فطری بات ہے کہ نکاح سے جان چُھڑوانے میں ہی عافیت محسوس ہو گی۔

اور لبرل و فیمینیسٹ معاشروں میں ہو بھی یہی رہا ہے۔ نکاح کے بغیرپارٹنع بن کے رہنا کا بڑھتا رجحان، شادی ہو بھی تو طلاق کی اونچی شرح۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے بچوں کی پیدائش تو جیسے تیسے نکاح یا بغیر نکاح چلتی رہے مگر ان کو پالنے کے لیے جو خاندان کا ادارہ موجود تھا وہ تباہ ہو جائے۔ اب کسی نے تو بچے پالنے ہیں ناں، تو یہاں یہ خلاء پُر کرے گی ریاست!

ذرا سوچیے، ریاست جب کسی کو بچپن سے پالے پوسے، پھر بڑا ہونے کے بعد بھی تمام بندوبست وہی کرے، تو فرد کو اپنی ذات کے بعد سب سے زیادہ پیارا و محترم و قابل اطاعت اپنا خاندان یا کوئی رشتہ نہیں بلکہ ریاست و مملکت لگے گا۔ اور یہی اصل مدعا ہے، سیکولرازم کیا ہے؟ ریاست سے مذہب کو جدا کرنا نہیں، خدا کی جگہ ریاست کو بٹھانا۔ جب ریاست بچے پالنے سے لے کر ہر کام کرے گی تو اس کا انکار کون مائی کا لال کرے گا؟ اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے انسان کو “اللہ کا بندہ/عبد” بننے کی بجائے ریاست کو معبود بنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ فیمن ازم، لبرل ازم اور ان کی تمام ذیلی فکریں سیکولرازم کے بعد اسی لیے پروان چڑھیں، کیونکہ یہ سیکولرازم کے بقاء و دوام کا “بیج/seed” ہیں۔ انسانی زندگی میں خدا کو نکال کے جو خلاء پیدا ہونا ہے وہ ریاست بھرے گی۔ اور ریاست کو چلانے والے (کہیں سرمایہ دار، کہیں عسکری اسٹبلشمنٹ، کہیں دوسرے طاقتور طبقے) خدا بن بیٹھیں گے!

اس لیے یاد رکھیں، “پورے کے پورے دین میں داخل ہو جاؤ” کے قرآنی حکم کی بنیاد یہی ہے۔ ہر “ازم” اپنے ساتھ پورا نظام حیات رکھتا ہے، اور وہ نظام پورے ایک نظریے کے فریم ورک کو ساتھ لاتا ہے اور نتائج ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ اللہ کو معبود مان کر چلیں تو ایک پورا نظام وجود میں لانا ہو گا جو اس ایک واحد الرحمٰن کی بندگی کو ensure کرے، اللہ کو معبود مان کر چلیں مگر نظام (جزوی یا کُلی) وہ لانا چاہیں جو “غیر اللہ” کا ہے، تو ایک دن آپ کا معبود بھی اللہ نہیں بلکہ وہی بن کے رہے گا جس کا نظام آپ نے اپنایا ہو۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے