کالم

سندھ حکومت اور اپوزیشن کا ایک سال!

اگست 19, 2019 4 min

سندھ حکومت اور اپوزیشن کا ایک سال!

Reading Time: 4 minutes

سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل تیسری حکومت کا پہلا سال کئی نشیب و فراز کے بعد 18اگست کو مکمل ہوگیاہے۔25جولائی 2018 ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں نئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا انتخاب 17اگست کو ہوا اور 18اگست2019ء کو انہوں نے عہدے کا حلف اٹھا یا ۔ ایک سال میں پیپلز پارٹی کی حکومت بہت بڑی کامیابی تو حاصل نہیں کرسکی مگر عمومی خیال یہ ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی کارکردگی بہتر رہی ہے ۔

سندھ حکومت بلکہ پیپلزپارٹی کے کریڈٹ میں سب اہم اور تاریخی کامیابی سندھ کے علاقے تھر میں حکومت سندھ اور دیگر نجی اداروں کے تعاون سے تھر کول سے 660 میگاواٹ سے زائد بجلی کی پیداوار اور نیشنل گرد تک فراہمی ہے۔ابھی بلاک 2 کے ایک حصے میں یہ کام ہوا ہے،جبکہ بلاک 2 میں 5سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔

تھر میں جہاں کوئلہ ہے وہ حصہ 12 بلاکوں پر مشتمل اور ہر بلاک کے 12 بلاک بنائے گئے ہیں۔تھر کے 21 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں سے 9300 اسکوائر کلو میٹر اراضی میں کوئلہ موجود ہے، تھر میں پائے جانے والے 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر دنیا کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہے اور صرف بلاک ٹو میں کوئلے کی مقدار 2 ارب ٹن ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 50 سے 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔

10 اپریل 2019 کو 660 میگاواٹ بجلی کے منصوبے کا افتتاح ہوا اور دعوت کے باوجود نہ صرف وزیر اعظم عمران خان بلکہ وفاقی حکومت اور اداروں کے کسی نمایندے نے شرکت نہیں کی(شاید انہیں 660میگاواٹ بجلی کی پیداوار ادراک نہیں یا سیاسی جیلسی سے کام لیا)، جس کو مقامی اور غیر مقامی تمام سرمایہ کاروں نے محسوس کیا۔ یہ 660 میگاواٹ بجلی یکم جون 2019 سے نیشنل گرڈ میں شامل ہوگئی ہے، اگرچہ یکم جون 2019ء سے چند روز قبل ہی اس منصوبے کے اہم کردار اور سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کے چئیرمین خورشید جمالی کی نیب کے ذریعہ گرفتار ی بھی ہوئی ہے۔ نئے بجٹ میں وفاقی حکومت نے تھر کے کوئلے پر15فیصد ٹیکس لگایا اور متاثرین علاقہ تھر باسیوں کو مفت بجلی کی فراہمی پر اعتراض کیاہے،پیپلزپارٹی کے حلقے ان اقدام کو اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش قراردے رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تھر کول منصوبے سے تھر میں انقلاب آچکا ہے اور اس کے ثواب و گناہ دونوں کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جاتا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے انتخاب کے فوری بعد ہی ان کی گرفتاری کی افواہیں گردش کرنے لگی اور بعض اوقات تو ’’آج یا کل‘‘گرفتاری کی افواہیں اور اپوزیشن کی جانب سے فوری مستعفی کے مطالبہ کا سلسلہ رہا۔ پورا سال سندھ میں صوبائی حکومت اور اپوزیشن کی جنگ جاری رہی اور وفاقی حکومت نے بھی سندھ حکومت کے ساتھ ستیلا سلوک رکھا، وزیراعظم عمران خان نے کئی اہم ایشوز کے موقع پر سندھ کے ایشوز کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔ اس کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ شدید دبائو اور مشکلات کے باوجود سب سے متحرک وزیراعلیٰ نظر آئے اورا نکی کارکردگی مناسب رہی ہے۔ ایک سال میں سندھ قانون سازی میں سب سے آگے رہا اور 131دن سندھ اسمبلی کا اجلاس ہوا، جو ایک ریکارڈ ہے۔

ایک سال میں ممتاز عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ کے سوا دہشت گردی کارروائیوں میں اضافہ نہیں ہوا ، مگر شہری علاقوں میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہواہے اوربلدیاتی اداروں کے حوالے سے حکومتی کارکردگی بہتر نہیں رہی ے ۔ایک سال میں کوئی بڑا اسکینڈل سامنے نہ آنا بھی سندھ حکومت کا مثبت اقدام ہے، تاہم شہری علاقوں میں صفائی اور ستھرائی کے حوالے سے کئی سوال اٹھے ہیں ، جو درست ہیں۔ عام خیال ہے کہ سندھ حکومت کا بلدیاتی شعبہ ناکام رہا ، حالانکہ عمومی طور وسائل دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں زیادہ ہیں اور اپوزیشن کا سب سے بڑا ایشو بھی یہی رہا ہے۔

سندھ میں8سے 14 اگست 2019ءتک قائم مقام گورنر کون رہا ؟یہ وفاقی حکومت ، صدر پاکستان اور اپوزیشن کے لئے سوالیہ نشان ہے ؟ پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل104 کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی رہے ، مگر ان کی گرفتاری کی بنیاد پرایوان صدر نے ڈپٹی اسپیکر کو قائم مقام گورنر نامزد کیا ، لیکن 9 اگست کو حلف برداری ہوئی اور نہ ہی صدر مملکت کے جاری نوٹیفیکشن کو واپس لیا گیااور ڈپٹی اسپیکر نے ایوان صدر کے نوٹیفکیشن کو آئین کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے عہدے کوسنبھالنے سے معذرت کی ۔

سندھ میں اپوزیشن کی ایک سالہ کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ۔ اپوزیشن ایک سال میں حکومت کے لئے کوئی بڑا چیلنج پیدا کرنے ناکام رہی اور 6 ماہ تک تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ کے لئے مذاکرات اور احتجاج کرتی ،جس کے بعد بھی نہ صرف چیئرمین شپ سے محروم رہی بلکہ اسمبلی کی دیگر اہم مجالس قائمہ سے محروم رہی اور حکومت نے 19 کمیٹیوں کا انتخاب کیا اور 12 کمیٹیاں خالی رکھی جو آج تک خالی ہیں، اپوزیشن جماعتوں کا تقسیم در تقسیم بھی اپوزیشن کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

اپوزیشن نے بعض اوقات سندھ پیپلزپارٹی کے خلاف محاذ بناکر گورنر راج لگانے یا ان ہائوس تبدیلی کے دعوے تو کئے مگر پھر خود ہی پسپائی اختیار کی۔ سندھ حکومت کے لئے اسپیکر سندھ آغاسراج درانی کے 19فروری 2019ء کو نیب کی جانب سے اسلام آباد میں گرفتاری اور 7 میں ماہ سے قید میں ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہے ، اسی طرح پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاری بھی ایک سال میں مشکلات کا باعث رہی ۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے مجموعی طور پر صرف کراچی میں 30سے زائد افراد جانبحق ہوئے اور اس حوالے سے کراچی میں بجلی فراہم کرنے والا ادارہ ’’کے الیکٹریک‘‘ گزشتہ 15 سال سے کراچی کے عوام ، وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے لئے ’’مصیبت‘‘ سے ثابت ہوا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ عدالتیں ، حکومت اور سلامتی کے اداروں سمیت کوئی اس ادارے کی گرفت کرنے میں ناکام رہا ہے، معلوم نہیں سب کی کونسی مجبوری ہے؟ اس لئے اس ادارے کی ہر ناکامی کا بالترتیب وفاقی ، صوبائی حکومتوں اور اداروں کے حصے میں آتی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے