پاکستان24 متفرق خبریں

جسٹس فائز کے خلاف ایک ریفرنس ختم

اگست 19, 2019 3 min

جسٹس فائز کے خلاف ایک ریفرنس ختم

Reading Time: 3 minutes

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز کے خلاف صدر مملکت کو خط لکھنے پر شروع کی گئی مس کنڈکٹ کی کارروائی ختم کر دی ہے۔

کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو صدر کو خط لکھنے پر بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معزز جج نے خط لکھنے کااعتراف کیا تاہم اس کے مندرجات انہوں نے عام نہیں کیے۔

خط لکھنے کے معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم کی جاتی ہے۔

وحید شہزاد بٹ نامی وکیل نے بارہ جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ارسا ل کی تھی۔ شکایت آنے پر کونسل کے رکن جسٹس عظمت سعید سے رائے لی گئی تھی۔ جسٹس عظمت سعید کی رائے آنے کے بعد معاملہ بارہ جولائی کوکونسل کے سامنے رکھاگیا۔


کونسل نے بارہ جولائی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کافیصلہ کیا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے صدر کو دوخطوط لکھنے کوتسلیم کیا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے خطوط میڈیا کو جاری کرنے سے انکار کیا اور نے جاری کئے گئے شوکاز پر اعتراضات کیے۔

جسٹس فائز نے اعتراض کیا کہ شوکاز جاری کرنے کے لئے مناسب مواد دستیاب نہیں تھا اور سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل شوکاز جاری کرنے کے مجاز نہیں تھے۔

انہوں نے یہ بھی اعتراض کیا کہ کونسل کی جانب سے موجودہ شکایت کو اپنی باری سے پہلے سننا درست نہیں جبکہ چیف جسٹس سے ملاقات میں خط نہ لکھنے کا کوئی مشورہ نہیں دیا۔


جسٹس فائز نے جواب دیا کہ معاملے پر میر ی پوری فیملی دباؤ کا شکار تھی اور جواب داخل کرنے کے لئے شکایت کی کاپی حاصل کرناضروری ہے جس کے لیے صدر کو خط لکھا۔


انہوں نے یہ بھی اعتراض کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج کی جانب سے صدر کو خط لکھنا مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔

کونسل نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ریفرنس موصول ہونے پر سیکرٹری نے چیف جسٹس کو آگاہ کیاجبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے خط میں ریفرنس سے متعلق معلومات نہ ہونے کا لکھا جو درست نہیں۔

فیصلے کے مطابق چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے درمیان ہونے والی گفتگو سے واضح ہے معزز جج کو ریفرنس کی معلومات تھیں۔ براہ راست معلومات ہونے کے باوجود صدر کو خط لکھنے پر کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے۔

کونسل نے لکھا ہے کہ خطوط میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کو بلاضرورت گھسیٹنا اچھا عمل نہیں۔


کونسل کی نظر میں اس معاملے پر جج کے خلاف خاطر خواہ مواد نہیں جبکہ سیکریٹری نے کونسل کے حکم کے تحت ہی شوکاز جاری کیا۔

کونسل نے وزیراعظم، ان کے اہلخانہ کو خط میں شامل کرنے اور خطوط میں غلط وجوہات لکھنے کی بنا پر شوکاز جاری کیا۔

کونسل کے مطابق جسٹس قاضی فائز کی جانب سے باری کے خلاف ریفرنس سننے کا موقف درست نہیں۔ آنے والے تمام ریفرنسز کو فوری کوڈ کے تحت پر کھا جاتا ہے۔ کونسل میں اس وقت صرف چھ کے قریب شکایات زیر التوا ہیں۔ زیر التواء شکایات بھی قانون کے مطابق کارروائی جاری ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ریفرنس چلانے سے متعلق طریقہ کار کا فیصلہ کونسل نے کرنا ہے۔ جس جج کے خلاف ریفرنس ہو وہ ایک ریفرنس میں اپنائے گئے طریقے دیگر ریفرنسز میں اپنانے کا نہیں کہہ سکتے۔

کونسل میں شکایات کنندہ جج کی جانب سے خطوط پبلک کرنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ جج کی جانب سے خطوط ذاتی طور پر صدر مملکت کو لکھے گئے۔ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جسٹس عیسی اس وقت اپنے سسر اور بیٹی کی میڈیکل صورتحال کے باعث دباو کا شکار تھے۔

کونسل کے فیصلے کے مطابق ریفرنس کامواد دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے اسے معزز جج صاحب کو بتانے کافیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے انٹر کام کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے چیمبر آنے کا کہا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے انفارمنٹ وکیل وحید شہزاد بٹ کا مؤقف سننے کے بعد ریفرنس ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔

کونسل نے لکھا ہے کہ خط لکھنے کے وقت جسٹس فائز پریشانی یا سٹریس کا شکار تھے کیونکہ ان کے سسر کی طبیعت خراب تھی جبکہ صدارتی ریفرنس میڈیا میں آنے کے بعد ان کی بیٹی بھی ذہنی تناؤ کی کیفیت میں تھیں۔

کونسل کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ انفارمنٹ وکیل ایسا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ جسٹس فائز نے صدر مملکت کو لکھے گئے خطوط میڈیا کو فراہم کیے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے