پاکستان پاکستان24

’گندی ویڈیو سے ایماندار جج بھی بدنام‘

اگست 20, 2019 4 min

’گندی ویڈیو سے ایماندار جج بھی بدنام‘

Reading Time: 4 minutes

جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل پر دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جج ارشد ملک نے ہم سب ایماندار ججوں کے سرشرم سے جھکا دیے ہیں۔ پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیو اور آڈیو کو الگ الگ ریکارڈ کر کے جوڑا گیا۔ اس پر بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل انورمنصور اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ تحقیقات مکمل کرنے کیلئے 3 ہفتے کا وقت دیا تھا، ایف آئی اے کی رپورٹ سے لگتا ہے جج کی 2 ویڈیوز تھیں، ایک ویڈیو وہ تھی جس پر جج کو بلیک میل کیا گیا۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی، عوام کے لئے رپورٹ کی سمری پڑھ کر سنائیں، رپورٹ میں کوئی قابل اعتراض مواد ہے تو بے شک نہ پڑھیں۔

عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ارشد ملک کی احتساب عدالت میں تعیناتی 13 مارچ 2018 کو ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ناصر نجوعہ نے دعویٰ کیا ارشد ملک کو انہوں نے تعینات کروایا، کیا وہ مبینہ بااثر شخص سامنے آیا جس نے تعینات کروایا؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ارشد ملک کی مبینہ تعیناتی کرانے والا بااثر سامنے نہیں آیا، ارشد ملک کے بقول نوازشریف کو بری کرنے کے عوض 10 کروڑ کی پیشکش ہوئی، شہبازشریف اور لیگی قیادت نے ویڈیو سے لاتعلقی ظاہر کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مریم نواز نے ویڈیو سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ویڈیو ناصربٹ نے بنائی تھی۔

ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق مریم نواز نے کہا جج کی قابل اعتراض ویڈیو انہوں نے نہیں دیکھی، پریس کانفرنس میں مریم نواز کے مؤقف میں تضاد ہے۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت کے پوچھنے پر کہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ ہوا؟ تو اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ 2003 میں ملتان سے برآمد ہونے والی ویڈیو کا فرانزک ہوا، ارشد ملک کی ویڈیوز ناصربٹ نے ان کے گھر پر ریکارڈ کی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ارشد ملک کی نئی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوسکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق مریم کہتی ہے کہ ویڈیو ان کے پاس نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ جج کی ویڈیو کا فرانزک کیوں نہیں کروایا گیا؟

ایف آئی اے کے ڈی جی بشیر میمن نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس اصل ویڈیو دستیاب نہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ جو ویڈیو کی کاپی ہے اس کا ماہرین سے معائنہ تو کرائیں۔ پورے پاکستان کے پاس ویڈیو ہے مگر تفتیشی ادارے کے پاس نہیں۔

رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کو 100 ملین روپے رشوت کی آفر بھی کی گئی۔ 6 جولائی کو ن لیگ نے پریس کانفرنس میں ویڈیو دکھائی۔ میاں طارق محمود نے جو ویڈیو بنائی وہ قابل اعتراض ویڈیو ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملتان ویڈیو جس کے ذریعے ارشد ملک کو بلیک میل کیا گیا اس میں طارق محمود بھی ہیں۔ 

تفتیشی رپورٹ کے مطابق مریم نواز نے ویڈیو سے علیحدگی ظاہر کی۔ میاں طارق سے اصل ویڈیو لے کر فرانزک کرا لیا ہے۔ پریس کانفرنس والی ویڈیو کی کاپی موجود تھی اس لیے اس کا فرانزک نہیں کرایا۔ 

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو سوال سب پوچھ رہے ہیں اس کا جواب نہیں اور 71 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کر دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق صرف ملتان والی ویڈیو کا فرانزک ہوا ہے۔ پریس کانفرنس والی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوا۔ وہ ویڈیو اصل کی بلکہ اصل کی کاپی تھی۔ مریم نواز کے مطابق پارٹی کا ایک کارکن موبائل میں ویڈیو لایا تھا۔ ویڈیو کاپی کرانے کے بعد وہ موبائل واپس لے گیا۔ 

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا صرف ویڈیو کی تفتیش ہو رہی ہے یا پھر ویڈیو کے پیچھے کی کہانی کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے؟ 

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ناصر بٹ اور سلیم رضا ملک میں موجود نہیں۔ جس دن یہ سب ہوا اس سے اگلے روز یہ دونوں ملک چھوڑ گئے تھے۔ 

جسٹس کھوسہ نے پوچھا کہ کیا کسی عدالت میں اس ویڈیو کا فائدہ اٹھانے سے متعلق درخواست دائر کی گئی ہے؟ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ اس حوالے سے کیا طریقہ اپناتی ہے وہ ان کا معاملہ ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے جنھوں نے یہ کہانی چلائی وہ اس سے مبرا ہو گئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں الیکٹرانک میڈیا کے قوانین کو بھی دیکھنا ہو گا۔ قانون تب لاگو ہوں گے جب ویڈیو مستند ثابت ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں بھی اس کا معیار ویڈیو کے مستند ہونے کے بعد طے ہو گا۔ 

جسٹس عظمت نے کہا کہ ماہرین سے رائے تو لیتے اصل کام تو کیا ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ ویڈیو آڈیو میں فرق تو نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا یہ بھی دیکھنا ہے کیا یوٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے۔

اٹارنی کے مطابق جج ارشد ملک فیصلے کے بعد 2 مرتبہ عمرہ کرنے گئے، کچھ معلومات کھل کر عدالت میں نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو کی سب ٹائیٹلنگ بھی کی گئی، ویڈیو کے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے، اگر کسی نے فائدہ اٹھانا ہے تو وہ اصل ویڈیو کو پیش کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کو سزا دلوانی ہے تو پھر ویڈیو حکومت کو ڈھونڈنی ہے، ارشد ملک ہائیکورٹ کے ماتحت جج تھے، احتساب عدالت کے جج کے طور فارغ کر کے ان کی خدمات وفاقی حکومت کے سپرد کردی گئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس جج صاحب کیا کررہے ہیں، وہ وہاں تنخواہ لے رہے ہیں، ایسا جج جس کا ماضی داغ دار ہو اس کو بہت سے لوگ بلیک میل کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو دیکھنا چاہیے کیا ایسا شخص جج رہ سکتا ہے جو آسانی سے بلیک میل ہو جائے۔ 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جج کی قابل اعتراض ویڈیو آپ کے پاس بھی ہے، ایسے جج کو حکومت، کوئی سائل یا فریق آسانی سے بلیک میل کرسکتا ہے، چیف جسٹس

جج کیخلاف کارروائی کا معاملہ ہائیکورٹ نے دیکھنا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی، جس کو سزا دی اس سزا یافتہ شخص سے ملاقات کرتے پھرتے رہے، سزا یافتہ شخص کے بیٹے سے ملاقات کیلئے مدینہ پہنچ گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد ملک کی وجہ سے عدلیہ میں موجود ہم سب ہزاروں ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ 

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ارشد ملک کے معاملے کو اتنا ہلکا کیوں لیا گیا، ایسا جج جس نے خود تعلقات کو تسلیم کیا اسے تعینات کیوں کیا گیا، جج کی دوبارہ وہیں تعیناتی ہوئی جہاں اسے پلانٹ کیا جانا چاہیے تھا، کیا تمام پہلوؤں کو سب نے دیکھا ہے۔ فوجداری پہلو بھی قابل تحقیق ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیو کی تصدیق کی برطانیہ سے کوشش کی گئی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے