کالم

کشمیر، پاکستان اور اُمّہ

اگست 25, 2019 5 min

کشمیر، پاکستان اور اُمّہ

Reading Time: 5 minutes

سعید بلوچ

پانچ اگست کی صبح کشمیریوں کے لیے ایک نئی اذیت لے کر آئی جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمان میں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا بل پیش کیا جسے بھارتی صدر نے منظور بھی کر لیا۔ ساتھ ہی بھارتی حکومت نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا جس کو آج تین ہفتے گزر گئے۔

ہزاروں کشمیری مرد و خواتین کو گرفتار اور اغوا کیا جا چکا ہے جن کو مقبوضہ کشمیر سے باہر بھارتی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کی وجہ سے خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، سکول کالج اور دیگر ادارے بند ہیں، مواصلات کا نظام بھی ٹھپ ہے جس سے لوگ ایک دوسرے کی خیریت تک دریافت نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ وہاں کیا صورتحال ہے ہمیں معلوم نہیں اور شاید نا ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کشمیر میں بھارتی مظالم پر چیخ رہا ہے۔


ہم پاکستانی مسلم امہ پر بہت پختہ یقین رکھتے ہیں اور بچپن سے ہمیں یہی پڑھایا گیا ہے لیکن کشمیر پر مسلمان ملکوں نے کیسے ردعمل دیا ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ ہم امہ کو کیسے دیکھتے ہیں اور امہ ہمیں کون سی عینک لگا کر دیکھتی ہے۔

متحدہ عرب امارات
مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ، متحدہ عرب امارات نے بھارت کی حمایت کا اعلان کیا، نئی دہلی میں تعینات اماراتی سفیر نےمقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے مودی سرکار کے فیصلے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔


بھارت میں تعینات متحدہ عرب امارات کے سفیر ڈاکٹر احمد نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی سرکار نے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور متحدہ عرب امارات مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بہتری کیلئے بھارتی اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔ اماراتی سفیر کے بیان کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت نے سفیر کے بیان پر یو ٹرن لے لیا اور وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کو جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی غور کرنے والی ہے کہ کشمیر کی تازہ ترین گھمبیر صورتحال کے باوجود اماراتی حکومت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سب سے بڑا سول اعزاز بھی دے دیا ہے جبکہ مندر کا افتتاح بھی کیا جا چکا ہے۔

سعودی عرب
وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بتایا جبکہ ولی عہد کی جانب سے صرف اتنا کہا گیا کہ وہ کشمیر کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں کو امن و استحکام برقرار رکھنے پر زور دیا۔ یہ گہری نظر پتا نہیں کتنی گہرائی میں دیکھتی ہے اس بارے نہیں جانتا۔ لیکن سعودی عرب کی جانب سے خاموشی بہت معنی خیز ہےاور پاکستانی عوام کے لیے بہت سے جوابات اس خاموشی میں پوشیدہ ہیں۔ اور پھر پچھلے ہفتے سعودی عرب کی پٹرولیم کمپنی ارامکو نے بھارتی ریلائنس انڈسٹریز کے پٹرولیم ڈویژن کے بیس فیصد شیئر خریدنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی بھارت میں 75 ارب ڈالر کی سرمایا کاری کا اعلان بھی کیا۔ ریلائنس مقبوضہ کشمیر کی ترقی کے لیے کام بھی کرے گا اور سعودی عرب ریلائنس انڈسٹریز کے مکیش امبانی کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے۔

قطر
اب آتے ہیں قطر کی طرف، قطر نے کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر اپنے شہریوں کو فوراً کشمیر چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اس کے علاوہ کشمیر پر کسی قسم کے کوئی خدشات ظاہر نہیں کیے۔

بحرین
بحرین سے وزیراعظم عمران خان کا رابطہ ہوا، بحرین کی جانب سے کہا گیا کہ وہ کشمیر کی صورتحال کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک بات چیت سے تمام مسائل کو حل کریں گے۔ تین دن بعد بحرین حکومت نے مانامہ میں کشمیر کی حمایت میں ریلی نکالنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ جبکہ اس ہفتے نریندرا مودی بحرین میں ایک مندر کی تزئین و آرائش کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔

ملائیشیا
وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا کہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال کا بغورجائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملاقات کا منتظر ہوں۔ شاید ٹیلیفون کی بجائے اقوام متحدہ میں عمران خان کو سامنے بٹھا کر کوئی نسخہ بتا دیں جس سے پاکستان کشمیر کے بارے اپنے مؤقف کو موثر طریقے سے اٹھا سکے کیوں کہ ٹیلیفون لائن شاید اتنی زیادہ محفوظ نہیں ہوتی؟

ترکی
ان سب کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر طیب اردگان سے بھی رابطہ کیا۔ وزیراعظم نے ترک صدر کو مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ ترک صدر طیب اردگان نے بھارتی اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی بھرپور حمایت کرنے کا اعلان کیا۔

ایران
ایران کے روحانی لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور بھارت کو کشمیر پر دباؤ نا ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو برطانیہ کی کارستانی قرار دیا۔ اس کے اوہ ایران کی پارلیمان میں کشمیر کے حق میں قرارداد بھی پیش کی گئی۔ قرار داد میں تمام مسلم ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائیں، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تہران سمیت مسلم امہ پر مظلوم کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کے حوالےسے اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکتے۔

او آئی سی
یہ تمام مسلمان ممالک پر مشتمل ایک ہجڑا نما تنظیم ہے جس کا بظاہر کوئی نفع نقصان نظر نہیں آتا۔ کشمیر کی تمام تر صورتحال میں او آئی سی کی جانب سے چند ٹویٹس میں کشمیر کی بگڑتی صورتحال اور مذہبی پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ او آئی سی نے دونوں ممالک سے بات چیت سے تنازعہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دیا۔ شاید کشمیر میں مذہبی پابندیاں ہی سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور آرٹیکل 370 اور 35 اے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ او آئی سی کی باگ دوڑ اس وقت سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے۔

مسلم دنیا میں موجود یہ تمام اہم ممالک تصور کیے جاتے ہیں اور ان ممالک ایران اور ترکی کے علاوہ کسی نے کشمیر پر رسمی طور پر بھی بیان جاری نہیں کیا۔ ہم پاکستانی بلاوجہ ہی بیگانوں کی شادی میں عبداللہ بن کر ناچنے لگ جاتے ہیں بھلے کوئی ہمیں گھاس ڈالنے کے قابل بھی نا سمجھتا ہو۔

آج کے دور میں امہ کچھ بھی نہیں۔ یہ دور مفادات کا دور ہے۔ سعودی عرب یا دیگر ممالک ہماری طرف تبھی بڑھتے ہیں جب ان کے ہم سے مفادات وابستہ ہوں اور ہماری ضرورت ہو وگرنہ ہم ان کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اس وقت بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اس لیے تمام خلیجی ممالک وہاں سرمایا کاری کر رہے ہیں، اور بھارت کو اعلیٰ سول اعزاز دیے جا رہے ہیں، مندر بنانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ آج سے تین سال قبل جب نریندرا مودی نے اپنی سفارتکاری توپ کا رخ مسلم ممالک کی طرف کیا تھا تب شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ ایسا صرف کشمیر کے لیے کیا جا رہا ہے۔ آج مودی کی مسلم ممالک سے کی گئی سفارتکاری رنگ لائی ہے۔ ہمیں اسی وقت سمجھ جانا چاہیے تھا جب او آئی سی اجلاس میں ہم نہیں تھے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج موجود تھی۔

اللّٰہ پاکستانی رہنماؤں کو عقل اور ہدایت دے تاکہ ان کی آنکھیں کھل سکیں کہ یہ جس امہ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہ امہ کفار اور یہود و نصارٰی کے ساتھ بغل گیر ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے