کالم

"نواب اکبر بگتی شہید”

اگست 26, 2019 9 min

"نواب اکبر بگتی شہید”

Reading Time: 9 minutes

محمد اشفاق ۔ تجزیہ

اکبر بگتی ۔ پیدائش12 جولائی 1927
وفات 26 اگست 2006

بلوچستان میں قیام پاکستان سے اب تک پانچ مسلح بغاوتیں یا شورشیں ہو چکی ہیں۔ چوتھی تحریک 1977 میں ختم ہوئی تھی جس کے بعد تقریباً پچیس سال تک چھوٹے موٹے انفرادی واقعات کے علاوہ بلوچوں نے کوئی بڑی مزاحمتی تحریک نہیں چلائی۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد 2002 سے صورتحال بگڑنا شروع ہوئی جو 2005 سے ایک بار پھر مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔ یہ پانچویں انسرجنسی اب تک کی طویل ترین تحریک ہے جو لگ بھگ پندرہ برس سے جاری ہے اور اس کا نقطہء آغاز نواب اکبر بگتی کی شہادت تھی۔

بلوچستان کی فوج کے خلاف مزاحمت کی باقاعدہ تاریخ ہے جس کی بناء پر فوج اور بلوچوں میں ایک دوسرے کے بارے میں شدید بداعتمادی پائی جاتی ہے- یہی وجہ ہے کہ مشرف کے مارشل لاء پر بلوچستان میں گہری تشویش پائی جاتی تھی جو غم و غصّے میں بدل گئی جب مشرف نے گوادر کی بندرگاہ کی ڈویلپمنٹ کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کا تعلق بلوچستان سے تھا، بلوچی بجا طور پر یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ مرکز میں صوبے کے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کرے گا مگر کٹھ پتلی کے بس میں چند نکاتی ترقیاتی پیکج کے اعلان کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس پیکج کے کسی ایک نکتے پر بھی کوئی سنجیدہ پیشرفت نہ ہو پائی۔ 2002 سے گوادر میں جس طرح بھانت بھانت کی درجنوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا اعلان ہوا، غریب ملاحوں سے ان کی زمینیں اونے پونے داموں خرید کر کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے انویسٹرز میں دھڑا دھڑ فروخت کی جانے لگیں، اس سے بلوچوں میں یہ ڈر پیدا ہوا کہ گوادر کی مقامی آبادی کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا اور بلوچستان کی ڈیموگرافی بھی ہمیشہ کیلئے تبدیل ہو جائے گی۔ فوج کی جانب سے بلوچستان میں چھاؤنی کے قیام کے منصوبے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بلوچستان میں تعینات ایف سی کے رویے اور حرکات سے بلوچوں کو بہت سی جائز شکایات تھیں۔ مجوزہ چھاؤنی کو انہوں نے بلوچستان کی کالونائزیشن کی کوشش سمجھا۔ نواب اکبر بگٹی اس وقت بلوچستان کے سب سے قد آور سیاسی راہنما تھے۔ انہوں نے ہر معاملے پر کھل کر دلیرانہ موقف اپنایا اور مرکز کی پالیسیوں پر جارحانہ تنقید کی۔ 2002 سے ایف سی نے سوئی آئل فیلڈ کی حفاظت کے بہانے سوئی اور ڈیرہ بگتی میں ڈیرے ڈال دیے۔ اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہونے لگے۔ اور اسی دوران بدقسمتی سے ڈاکٹر شازیہ والا واقعہ پیش آ گیا۔

ڈاکٹر شازیہ خالد سوئی آئل فیلڈ میں بطور میڈیکل آفیسر تعینات تھیں۔ آئل فیلڈ اور رہائشی کالونیوں کی حفاظت کی ذمہ داری ڈیفنس سروسز گارڈز یا ڈی ایس جی کے سپرد تھی۔ مبینہ طور پر ڈی ایس جی کے کیپٹن حماد نے ایک رات زبردستی ان کے کمرے میں داخل ہو کر انہیں زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔اس دوران ڈی ایس جی کے گارڈز باہر پہرا دیتے رہے۔ صبح ڈاکٹر شازیہ نے جب انتظامیہ کو اس واقعے کی اطلاع دی تو انہیں ہمدردانہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں، ورنہ انہی کی بدنامی ہوگی۔ جب انہوں نے اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے پر اصرار کیا تو انہیں تین دن خواب آور دوائیں دے کر بیہوش رکھا گیا اور اسی بیہوشی میں انہیں کراچی کے ایک دماغی امراض کے ادارے میں منتقل کر دیا گیا۔ مقصد انہیں ذہنی مریض قرار دینا تھا۔ یہیں سے وہ بمشکل اپنے شوہر سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئیں جو ان دنوں لیبیا مقیم تھے۔ اس دوران سوئی فیلڈ کے ملازمین نے یہ خبر باہر پھیلا دی۔ بلوچوں کے ہاں اپنے علاقے میں کام کرنے والی خواتین کو پورے قبیلے کی آبرو سمجھا جاتا ہے- ڈاکٹر شازیہ کا تو آبائی علاقہ بھی سوئی تھا۔ بگٹی قبائل میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ مسلح قبائلیوں نے آئیل فیلڈ اور ڈی ایس جیز پر حملے کرنے کی کوشش کی۔ ایک فوجی کانوائے پر راکٹ فائر کئے گئے۔ نواب اکبر بگٹی جہاں ایک جانب اپنے قبیلے کو سمجھاتے بجھاتے رہے وہیں انہوں نے حکومت سے اس واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران ڈاکٹر شازیہ اور ان کے شوہر کراچی میں لگ بھگ دو ماہ عملاً ہاؤس اریسٹ میں رہے۔ جنرل مشرف پی ٹی وی پر نمودار ہوا اور بغیر تحقیقات کے کیپٹن حماد کو معصوم قرار دے ڈالا۔ اس متکبرانہ رویے نے صورتحال مزید خراب کی۔ اوپر سے بلوچستان کی مقامی انتظامیہ متضاد اور من گھڑت انکشافات کرتی رہی۔ ایک بار کہا گیا کہ تشدد ہوا ہے، زیادتی نہیں۔ پھر کہا گیا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کرنے والا بگٹی قبیلے کا ایک کلرک ہے- ڈاکٹر شازیہ کا اس رات کا لباس، ان کے کمرے میں ٹوٹا ہوا ٹیلی فون جس کے ساتھ مجرم ان پہ تشدد کرتا رہا تھا اور کمرے میں مزاحمت کی تمام نشانیاں ختم کر دی گئیں۔ ریاست کا من پسند حربہ آزمایا گیا یعنی اخبارات میں ایک غلیظ اور گھٹیا مہم چلائی گئی جس کے مطابق ڈاکٹر شازیہ کا اپنا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ ڈاکٹر شازیہ نے مایوس ہو کر خودکشی کی کوشش کی۔ اس دوران ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے- جھانسہ یہ دیا گیا کہ آپ فوری برطانیہ چلی جائیں وہاں سے حکومت آپ کو کینیڈا شفٹ کروا دے گی مگر ایک بار وہ ملک سے نکل گئیں تو انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

دورہ امریکا کے دوران واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں مشرف نے کہا کہ پاکستانی خواتین ریپ کو پیسہ کمانے اور غیرملکی نیشنیلٹی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ دو دن بعد وہ اس بیان سے مکر گیا اور کہنے لگا کہ اس کے سامنے یہ بات ہوئی تھی اس نے نہیں کی تھی، مگر واشنگٹن پوسٹ کے پاس اس ملاقات کی ریکارڈنگ موجود تھی۔ یوں ایک بے شرم اور ذلیل انسان نے ایک جونئیر آفیسر کی خاطر اپنے پورے ادارے کی نیک نامی اور عزت داؤ پر لگا دی۔

مشرف اور بعض لوکل کمانڈرز کا خیال یہ تھا کہ صرف تین سرداروں خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی کا بندوبست کر دیا جائے تو صورتحال نارمل ہو سکتی ہے- مشرف نے 2005 کے آغاز میں یہی پچاس برس پرانا مردہ کلیشے دہرایا کہ ” سارے مسائل کی جڑ دو تین بلوچ سردار ہیں۔ پچھلی حکومتیں ان سے مذاکرات کرتی اور ان کی باتیں مانتی رہی ہیں۔ میری حکومت ریاست کی رٹ منوا کر رہے گی”

نواب اکبر بگتی نے مذاکرات کی پیشکش پر جنوری 2005 میں کہا کہ ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فوجی آپریشن اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں۔ اگر آپ مذاکرات چاہتے ہیں تو طاقت کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔”

اس کے صرف دو ماہ بعد سترہ مارچ 2005 کو جب نواب اکبر بگتی اور ان کے بیٹے نواب جمیل بگتی اپنے گھر پر موجود تھے، ان پر بمباری کی گئی۔ اکبر بگتی، شاہد بگتی اور جمیل بگتی بمشکل جان بچا پائے۔ چھیاسٹھ ہندو خواتین، مرد اور بچے اس بمباری کی زد میں آ کر جاں بحق ہوئے۔ بلوچ روایات سے ناواقف قارئین کو بتاتا چلوں کہ کسی بھی بلوچ قبیلے کی حدود میں رہنے والے کسی بھی اقلیتی برادری کے افراد اس قبیلے کی مشترکہ ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں اور نواب اکبر بگٹی نے ڈیرہ بگتی کے تمام ہندوؤں کو اپنے ذاتی ڈیرے پر رہائش گاہیں دے رکھی تھیں۔ نواب جمیل بگتی نے بعد میں بتایا کہ وہ یہ بات کبھی نہ بھول پائیں گے کہ جو گھر ہندو بھائیوں کی پناہ گاہ تھا وہی ان کیلئے موت کا پھندا ثابت ہوا۔

اس حملے پر پورے ہی ملک میں شدید ردعمل آیا۔ سندھ اور پنجاب کے سیاستدانوں کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ مشرف طاقت کا ناجائز استعمال کر رہا ہے- چوہدری شجاعت حسین نے مشرف سے مذاکرات کی اجازت لی اور سینیٹر مشاہد حسین سید کی قیادت میں ایک مذاکراتی وفد ڈیرہ بگتی پہنچا۔ شیری رحمان بھی اس وفد کا حصہ تھیں۔ بعد میں مشاہد حسین سید نے الجزیرہ کو انٹرویو میں بتایا کہ ” ہم نے نواب اکبر بگتی کو مصالحت، مذاکرات اور سمجھوتے کیلئے تیار پایا مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک مائنڈ سیٹ ہے- یہ مائنڈ سیٹ چھوٹے صوبوں کو ان کے جائز حقوق دینے میں ہمیشہ سے رکاوٹ رہا ہے”

خیر مشاہد حسین سید کی کوششوں اور چوہدری شجاعت کے درپردہ رابطوں کے نتیجے میں چند شرائط پر اتفاق ہوا، مگر مشرف کے دباؤ پر اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعظم شوکت عزیز نے سمجھوتے میں شامل عام معافی کی شرط کا اعلان کرنے سے انکار کر دیا۔ نواب اکبر بگٹی نے اپنی جانب سے اس معاہدے کی ہر ممکن پاسداری کی۔

مشرف دسمبر 2005 میں بلوچستان کے دورے میں سب سے حساس ترین علاقے کوہلو جا پہنچا جہاں کچھ قبائلیوں کو زبردستی اس کا خطاب سننے کیلئے اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس جلسے پر کچھ راکٹ فائر ہوئے، پولیس کے کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ یہ مری قبائل کا علاقہ تھا۔ سترہ دسمبر 2005 میں فوج نے تیس ہزار سپاہیوں، بارہ گن شپ ہیلی کاپٹرز اور چار جیٹ فائٹرز کے ساتھ کوہلو سے آپریشن کا آغاز کیا جو بڑھتا ہوا ڈیرہ بگتی اور مکران تک پھیل گیا۔ اس آپریشن میں چھیاسی افراد شہید ہوئے جن میں پچیس کے قریب مرد تھے جو علیحدگی پسند قرار پائے۔ باقی سب خواتین اور بچے تھے جو اپنے گھروں ہی میں آسمانوں سے برستی آگ میں جھلس کر رہ گئے۔

امن معاہدے کی عملاً دھجیاں بکھر چکی تھیں۔ مشرف نے ایک بار پھر ٹی وی پر آ کر بلوچوں کو کھلم کھلا دھمکی دی کہ "وہاں سے ہٹ کریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا”

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نواب اکبر بگٹی کا کوئی ایک مطالبہ بھی غیر آئینی نہیں تھا۔ نہ ہی انہوں نے شیخ مجیب کی طرح پاکستان سے علیحدگی کی بات کی تھی۔ جیو نیوز کیلئے حامد میر کو دیے گئے اپنے اگست 2006 کے انٹرویو میں جو ان کا آخری انٹرویو ثابت ہوا، نواب اکبر بگٹی نے کہا۔

” بلوچوں نے ہمیشہ ہر غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کی ہے۔ غدار میں نہیں ہوں، جنہوں نے آئین کے آرٹیکل سکس کی خلاف ورزی کی وہ اس ملک کے اصل غدار ہیں۔ میر گل خان نصیر (مرحوم قوم پرست رہنما اور شاعر) کی طرح میں بھی صرف اپنے لوگوں کیلئے مساوی حقوق مانگ رہا ہوں۔ مگر جنرل مشرف کے نزدیک یہ ایسا جرم ہے، جس کی سزا صرف موت ہے-” انہوں نے مزید کہا کہ ” آپ کے کمانڈو جرنیل کو میری شہادت پر ہی سکون آئے گا، مگر وہی اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب یہ آپ لوگوں پر ہے پاکستان یا جنرل مشرف میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں، فیصلہ آپ کا ہے”

صرف دو سال بعد مشرف کے اپنے ادارے نے مشرف کی بجائے پاکستان کا انتخاب کر لیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ بلوچستان کے متعلق یہ پالیسی پورے ادارے کی سوچ تھی۔ معروف صحافی زاہد حسین کو ایک کور کمانڈر نے بتایا کہ انہوں نے خود تین مرتبہ مداخلت کر کے آپریشن رکوایا تھا کیونکہ فوج میں بھی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ طاقت اس مسئلے کا حل نہیں ہے- مگر مشرف ایک ڈسپلنڈ فورس کو اپنی ذاتی آنا اور اپنے گھٹیا مقاصد کی تکمیل کیلئے بیشرمی سے استعمال کرتا رہا۔ زاہد حسین کے نیوز ویک میں شائع ہونے والے آرٹیکل "اٹس وار ناؤ” پہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر شوکت سلطان نے فون کر کے مشرف کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ بعد میں آرٹیکل میں لکھی تمام باتیں سچ ثابت ہوئیں۔

26 اگست 2006 کو فوج نے اس غار پر جس میں نواب اکبر بگتی کچھ ساتھیوں سمیت پناہ لئے ہوئے تھے، حملہ کر کے انہیں شہید کر ڈالا۔ ان کی لاش قبضے میں لے لی گئی اور بعد میں تابوت کو تالے لگا کر واپس کی گئی تاکہ لواحقین ان کا آخری دیدار کرنے سے بھی محروم رہیں۔ جنازے میں عوام کی شرکت بھی ناممکن بنا دی گئی۔

شہادت سے ایک ماہ قبل نواب اکبر بگٹی نے کہا تھا ” وہ مجھے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، مگر میں اپنا ورثہ اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کر کے جا رہا ہوں، میرے بعد نوجوان اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھیں گے”

اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ صحافی شاہ میر ان کی شہادت سے اگلے دن پسنی میں اپنے گھر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے، جب انہیں باہر شور کی آوازیں سنائی دیں۔ پسنی پاکستان کے سیاسی معاملات سے لاتعلق ایک الگ تھلگ سی ساحلی بستی تھی مگر وہاں کے لوگ اکبر بگتی کی شہادت کی خبر سن کر گھروں سے باہر نکل آئے تھے، عورتیں شیرخوار بچوں سمیت پولیس سٹیشن کے باہر کھڑی ماتم کناں تھیں، مرد سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے کو تیار تھے۔

بلوچستان میں اس سے پہلے والی چاروں شورشوں میں مکران ڈویژن الگ رہا تھا۔ 2005 سے شروع ہونے والی مسلح جدوجہد میں مکران ڈویژن پیش پیش ہے- اس سے پہلے والی بغاوتوں میں زیادہ تر ان پڑھ قبائلی ہی شریک ہوا کرتے تھے۔ اس بار بلوچستان کے ڈاکٹرز، انجینئرز اور بزنس گریجویٹس بھی اس تحریک کا حصہ ہیں۔ اس سے پہلے ہر شورش میں کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی قائد ریزیڈنسی کی جانب نہیں دیکھا تھا کیونکہ تب قائد کا ساتھی نواب اکبر بگٹی زندہ تھا، اس بار زیارت ریزیڈنسی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دی گئی۔ اس سے پہلے بدترین حالات میں بھی سرکاری عمارتوں پر پاکستانی پرچم لہراتا رہتا تھا۔ اس مرتبہ سرکاری سکولوں میں قومی ترانہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا گیا۔ آج تیرہ برس گزر جانے کے باوجود تحریک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کیونکہ جو بلوچ راہنما اس تحریک کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، مر چکے یا جلاوطن ہیں۔

مشرف کب کا دم دبا کر بھاگ چکا مگر بلوچستان اس کی بھڑکائی آگ میں اب تک جل رہا ہے- 2013 تا 2017 کے چار سالوں میں حالات میں کسی قدر بہتری کی امید بندھی تھی۔ مگر چند قلیل مدتی گھٹیا سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے راتوں رات چند سیاسی ٹاوٹوں کی جماعت کھڑی کر کے اسے بلوچستان پر مسلط کر دیا گیا ہے- جو وزیر اعلیٰ کور کمانڈر کی اجازت کے بغیر واش روم جانے کی ہمت نہیں رکھتا وہ بھلا بلوچستان کے پیچیدہ سیاسی مسائل کا حل خاک نکالے گا۔

اس ملک میں جمہوریت، آئین کی بالادستی اور سویلین سپریمیسی کی جدوجہد کرنے والوں کی جنگ کسی ادارے، کسی شخصیت کے خلاف نہیں ہے- ہماری جنگ اس فرسودہ، گلی سڑی اور بدبودار سوچ سے ہے جو قیام پاکستان کے حق میں مہم چلانے والے، بانی پاکستان کے ساتھی، صوبے کے دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور ایک مرتبہ گورنر رہنے والے اس دھرتی کے قابل فخر سپوت کو غدار قرار دے کر مار ڈالتی ہے- نفرت اس سوچ سے ہے جس کے تحت ملک کا ایک منتخب صدر، دو منتخب وزرائے اعظم تو ٹرائل کے دوران جیل بھگتتے ہیں اور سینکڑوں بے گناہوں کے قاتل، دو مرتبہ آئین شکنی کے مرتکب بزدل بھگوڑے آمر کو ریاست پندرہ لاکھ ماہوار پر وکیل مقرر کر کے دیتی ہے-

بگتی تیرہ برس بعد بھی زندہ ہے، بگتی ایک سو تیرہ برس بعد بھی زندہ رہے گا۔ اس نے اپنی دھرتی کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے جان دی ہے اور بلوچ اپنے شہیدوں کو کبھی نہیں بھلاتے۔

مشرف جیتے جی مر چکا ہے، بوٹ چاٹ قبیلے کے سوا پورے ملک میں کوئی اس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا۔

بگتی زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ تمام تر ریاستی پروپیگنڈے کے باوجود وہ ہزاروں لاکھوں پنجابیوں کیلئے بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے بلوچ سرمچاروں کیلئے۔ ان کے یوم شہادت پر ایک پنجابی ان کو سلام پیش کرتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے