متفرق خبریں

فیس بک پوسٹ پر معافی

ستمبر 6, 2019 2 min

فیس بک پوسٹ پر معافی

Reading Time: 2 minutes

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف سو کلو سونے کی جعلی سوشل میڈیا پوسٹ لگانے والے مرکزی ملزم تک پہنچنے میں ناکام ہونے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکار ناکام ہوگئے تاہم فیس بک پوسٹ کو شیئر کرنے والے سابق پروفیسر کو گرفتار کر کے معافی منگوا لی گئی۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں کنوینیر کلثوم پروین کی صدارت میں سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں جعلی فیس بک پوسٹ شیئر کرنے والے ڈاکٹر انور اقبال کو پیش کیا گیا جہاں انہوں نے قائمہ کمیٹی کے ارکان سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ کمیٹی کے ارکان نے ڈاکٹر انور اقبال کی معافی قبول کر لی۔

ایف آئی اے حکام نے سینٹ کی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ مرکزی ملزم خبیب تاحال ٹریس نہیں ہو سکا تاہم کیس ابھی بند نہیں کیا تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کمیٹی نے ایف آئی اے کو مرکزی ملزم خبیب کی گرفتاری کی ہدایت کی۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر افضل بٹ نے سائبر کرائم ونگ کی کارکردگی پر بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ سائبر کرائم ونگ بہت مشکل حالات میں اپنی زمہ داریاں نبھا رہا ہے۔

’ہمارے پاس نہ کوئی گاڑی ہے نا کوئی سہولت ہے۔ پہلے سائبر کرائم کے 5 سینٹرز تھے اب 15 ہوگئے ہیں، تمام سینٹرز میں سویپر ملا کر 113 ملزمین ہیں۔ 3 سالوں کے دوران سائبر کرائم کے پاس ابتک 40 ہزار کیسز آئے ہیں۔‘

ڈائریکٹر کے مطابق ایک سال میں 15 ہزار کیسز سائبر کرائم کے پاس آتے ہیں۔ ان 15 ہزار کیسز کی تحقیقات کے لیے صرف 15 تفتیشی افسر ہیں۔

’ہمارے لیے ان وسائل میں زمہ داریاں نبھانا آسان نہیں ہے۔ کسی بھی کیس کو ٹریس کرنے کے لیے ہمیں دیگر اداروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس موبائل ڈیٹا تک رسائی بھی نہیں۔ دیگر اداروں کی جانب سے عدم تعاون اور تعطل کے باعث اصل ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ٹیلی کام کمپنیاں ہمیں براہ راست رسائی دیں تبھی اصل مجرم کو پکڑنا آسان ہوگا۔‘

ڈائریکٹر نے بتایا کہ وہ لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں، یہ کسی کا ذاتی کام نہیں، جعلی ٹرانزیکشنز میں ملزم بروقت پکڑنا مشکل ہوتا ہے۔

ایف آئی اے حکام نے انٹیلی جنس بیورو( آئی بی) کے مینڈیٹ پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ ٹیلکوز تک رسائی آئی بی کا مینڈیٹ نہیں۔ اس کے باوجود آئی بی کے پاس یہ سہولت موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’قائمہ کمیٹی ہمیں وہ رسائی دلوائے تاکہ کیسز ٹریس کیے جا سکیں۔ ہمیں براہ راست ٹیکلوز تک ائی بی بھی جیسی رسائی دلوائی جائے۔ ہمارا کام ہے مگر لوگوں کی منتیں کرتے رہتے ہیں کوئی جلد جواب نہیں ملتا۔‘

ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ذمہ داری ہے یہ سہولت ایف ائی اے کو قانون کے مطابق دی جائے۔ سائبر کرائم ونگ کو صرف ای میل کی بنیاد پر رسائی دی گئی ہے۔

’سائبر سیل پی ٹی اے کو ای میل کرتا ہے جس کا وہاں کا افسر جواب دے نہ دے۔ سائبر ونگ کا تعلق بھی سائبر سے ہے اور ہم ای میل پر کام کررہے ہیں۔‘

کمیٹی نے الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی خبروں کا نوٹس بھی لے لیا۔ سینیٹرز نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر چلنے والی غلط خبروں کا بھی تدارک ہونا چاہیے۔

ذیلی کمیٹی نے معاملے کو قائمہ کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کرنے فیصلہ کرتے ہوئے قائمہ کمیٹی میں تمام تفصیلات طلب کرلیں۔

کنوینیر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں سفارش کریں گے کہ پی ٹی اے سمیت تمام نمائندوں کو طلب کیا جائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے