پاکستان

لیڈی کانسٹیبل اور وکیل کا اصل معاملہ کیا؟

ستمبر 7, 2019 4 min

لیڈی کانسٹیبل اور وکیل کا اصل معاملہ کیا؟

Reading Time: 4 minutes

یاسر حکیم ۔ صحافی

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں تحصیل فیروز والہ کے ایک وکیل کو لیڈی کانسٹیبل کی جانب سے ہتھکڑیاں لگا کر لے جانے کی تصویر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی ہے جس کے بعد مقامی بار نے کچہری میں ہڑتال کر کے پولیس کا داخلہ بند کر دیا ہے۔

ادھر وکیلوں کو لائسنس جاری کرنے والے ملک کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے بھی واقعہ کو سخت نوٹس لیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے ایک پریس ریلیز میں اس واقعہ کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے لیے پنجاب پولیس کے سربراہ سے کہا ہے۔

پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین نے جمعہ کو لیڈی پولیس اہلکار کی ایک شخص کو ہتھکڑیوں میں لے جانے کی تصویر ہزاروں کی تعداد میں شیئر کی اور اس پر تبصرے کیے جس کے بعد ملک بھر کے وکیلوں، صحافیوں، نسوانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے ٹوئٹر اور فیس بک میمز اور سٹیٹس کے ذریعے ایک دوسرے پر شدید اور ذاتی نوعیت کے حملے کیے۔

وکیل کو ہتھکڑی لگا کر لیڈی کانسٹیبل کے حوالے کرنے پر وکیلوں نے پولیس کا کچہری میں داخلہ بند کر دیا۔

اس مقدمے کی تھانہ فیروز والہ ضلع شیخوپورہ میں پانچ ستمبر کو دن اڑھائی بجے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق مدعیہ فائزہ نواز لیڈی کانسٹیبل نے بتایا کہ اس کی ڈیوٹی فیروز والہ کچہری کے گیٹ پر تھی جب دن ایک بجے ایک کلٹس کار وہاں پارک کی گئی۔

مقدمے کے مطابق فائزہ نواز نے بتایا کہ گاڑی میں سے دو افراد نکلے جن میں سے ایک وکیل احمد مختار تھے۔ ’کانسٹیبل احمد علی نے ان کو گاڑی گیٹ کے سامنے سے ہٹانے کے لیے کہا مگر احمد مختار اشتعال میں آ گئے اور پولیس اہلکاروں کو گندی گالیاں دیں۔ میں نے گالیاں دینے سے منع کیا تو اس نے مجھے پہلے ٹانگ ماری اور پھر تھپڑ مارنے شروع کیے۔‘

مدعیہ لیڈی کانسٹیبل کے مطابق ان کو احمد علی اور دیگر اہلکاروں نے وکیل سے چھڑایا۔

فیروز والہ بار نے وکیل رانا احمد مختار کی گرفتاری اور اس کو لیڈی کانسٹیبل کے ذریعے ہتھکڑیاں لگا کر تصاویر بنانے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کو توہین آمیز اور قانون کے خلاف قرار دیا ہے۔

فیروز والہ بار کے صدر چوھدری احمد سلطان چیمہ ایڈووکیٹ کے دستخطوں سے جاری ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سات ستمبر کو وکیل مکمل ہڑتال کریں گے اور کسی پولیس اہلکار کو کچہری میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر صارفین اس کیس میں پولیس اور وکلا کو سخت سست سنا رہے ہیں۔

ایک صارف چودھری مبشر نے لکھا ہے کہ پولیس کا رویہ قانون کے مطابق نہیں کیونکہ اس کیس میں لیڈی کانسٹیبل مدعیہ ہے۔ ان تصاویر کے ذریعے پولیس نے ملزم کی تذلیل کرنے کی کوشش کی ہے اور عدالتی عمل سے قبل ہی خود کو انصاف کی مسند پر بٹھا کر سزا دینا شروع کر دیا ہے۔

صحافی سے وکیل بننے والے اشتیاق بخاری نے اس تصویر پر ردعمل میں لکھا ہے کہ ’پنجاب بار کونسل اور تمام وکلاء تنظیموں اور ملک بھر کے وکلاء کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک مدعیہ کو ملزم کی ہتھکڑی پکڑائی گئی۔‘

اشتیاق بخاری کے مطابق ایک وکیل کوہتھکڑی لگائی گئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا صلاح الدین اور سانحہ ساہیوال کے قاتل پولیس اہلکاروں کو ان پولیس والوں نے سزائے موت دلوا لی ہے؟

وکیل اشتیاق بخاری نے لکھا ہے کہ ’اس غنڈہ گردی اور پولیس گردی پر جو اس سے قبل عمران منج اور آج احمد مختار کے ساتھ ہوئی۔ آج نہ سوچا تو کل کوئی اور؟‘

اس پر جواب میں صحافی رانا مسعود نے لکھا ہے کہ ’کیا اس وکیل کو اس معصوم اور بھولی بھالی لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ بدتمیزی کرنی چاہیے تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ جتنی بھی معصوم ہو بہرحال پولیس والی ہی ہے۔ اسے ملزم کی ہتھکڑی پکڑا کریہ تصویر بنانے کا مقصد وکیلوں اور عوام الناس کو خواتین پولیس اہلکاروں کے اختیارات سے آگاہ کرنا ہے۔‘

صحافی جاوید سومرو نے اشتیاق بخاری کو جواب دیا ہے کہ ’اب اس کیس میں وکیل گرفتار ہوا ہے اور ہر وکیل اس کا ساتھ دے گا۔ لیکن اگر یہ خاتون اسی وکیل کے خلاف عدالت میں درخواست دیتی تو کون سا وکیل اپنے وکیل بھائی کے خلاف پیش ہوتا، شاید کوئی نہیں کیونکہ وکیل کے خلاف کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوتا۔ اوروکیل کی بادشاھی کی مثال اسلام آباد کی کچھری ہے جہاں عدالتی حکم کے باوجود وکیلوں نے قبضے چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے