متفرق خبریں

اوربینچ ٹوٹ گیا

ستمبر 16, 2019 3 min

اوربینچ ٹوٹ گیا

Reading Time: 3 minutes

مس کنڈکٹ کے الزام میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے عہدے سے برطرفی کی کارروائی کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف آئینی درخواست کی سماعت میں ان کے وکیل نے بینچ میں شامل ججوں ہر اعتراض کیا جن کو ڈیڑھ گھنٹہ تک سننے کے بعد بنچ نے وقفہ کیا اور بعد ازاں دو ججوں کے الگ ہونے کی وجہ سے مقدمے کی سماعت ختم کر کے نئے بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کے سپرد کر دی گئی۔

عدالت عظمیٰ کا سات رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز کی جانب سے وکیل منیر اے ملک نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ اس بینچ میں کچھ ججوں کو نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔

وکیل نے کہا کہ جن ججز کے مفادات اس کیس کے فیصلے سے جڑے ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہ ہوں۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی بھی جج متعصب ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ وہ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں۔

وکیل نے کہا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا ضروری ہے، عدلیہ پر اگر اعتماد نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا، انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔

کمرہ عدالت میں سینکڑوں وکلا موجود ہیں۔

سپریم کورٹ سے جاری کی گئی مقدمات کی فہرست کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ کے سامنے آٹھ درخواست گزار ہیں جن میں سے پہلے نمبر پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کونسل کی صدارتی ریفرنس پر کارروائی کو چیلنج کر رکھا ہے۔

فہرست میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے درخواست ذاتی حیثیت میں دائر کی ہے اور وہ خود ہی اپنی طرف سے دلائل دینے کے لیے پیش ہوں گے تاہم کئی وکلا کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے کی موجود نہیں اس لیے جسٹس قاضی فائز کسی وکیل کے ذریعے اپنا کیس پیش کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز کے خلاف صدارتی ریفرنس کو دیگر سات تنظیموں اور افراد نے بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کوئٹہ، بلوچستان بار کونسل، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن اور سینیئر وکیل عابد حسن منٹوشامل ہیں۔

اس مقدمے میں نامی گرامی وکیل عدالت کے سات رکنی بنچ کے سامنے دلائل دیں گے جن میں حامد خان، عابد حسن منٹو، حنا جیلانی، رشید اے رضوی، کامران مرتضیٰ، امجد علی شاہ، اعظم نذیر تارڑ، صلاح الدین احمد، قاسم میر جت اور محمد عاقل شامل ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کی جانب سے سات رکنی بنچ کے سامنے وکیل منیر اے ملک پیش ہو سکتے ہیں۔

سنہ دو ہزار سات کی عدلیہ بحالی تحریک کے بعد اس کیس کو عدلیہ کی آزادی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف صدارتی ریفرنس مئی کے اواخر میں دائر کیا گیا تھا جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر کونسل کی کارروائی کو ایک آئینی درخواست کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا۔

انہوں نے اپنی آئینی درخواست کو کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی درخواست کو دیگر درخواستوں کے ساتھ سنا جائے اور اس پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس فائز نے سپریم کورٹ میں دو متفرق درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ایک میں چیف جسٹس کے ان کے خلاف صدر کو خط لکھنے کے ریفرنس پر دیے گئے فیصلے کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔

جسٹس فائز عیسی نے اپنی درخواست میں کئی اہم انکشافات کیے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیے جانے سے ایک ماہ قبل چیف جسٹس کھوسہ ان کو واک پر لے گئے تھے اور کچھ باتیں کیں۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ”چیف جسٹس نے مجھ سے واک پر جو باتیں کیں وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بند کمرے میں بتاؤں گا اور پھر چیف جسٹس وہاں مجھے غلط ثابت کریں۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے