کالم

”آگے سڑک بند ہے“

Reading Time: 4 minutes جب اچانک روٹ لگ جائے، سڑک بند کر دی جائے اور آپ نے کسی اہم کام کے لیے بروقت پہنچنا ہو تو کیا گزرتی ہے۔

ستمبر 21, 2019 4 min

”آگے سڑک بند ہے“

Reading Time: 4 minutes

آمنہ علی الپیال

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پچھلے سات ماہ کے دوران شہریوں کو چھ سو سے زائد بار سڑکوں پہ بن بتائے روکا گیا۔ کسی نے پوچھا تو جواب آیا کہ ”روٹ لگا ہے۔“

وی آئی پی موومنٹ یا اہم شخصیات کی سڑک کے ذریعے آمد و رفت ہمیشہ عوام کے لیے وبال جان رہتی ہے۔ گزشتہ حکومت میں جب وزیراعظم یا ان کے اہل خانہ باہر قدم رکھتے تھے تو کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا قافلہ ساتھ ہوتا تھا۔اس وقت تحریک انصاف اس شاہی سواری کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی۔ مگر ملک میں اب بھی ہر جگہ وہی نظام ہے اور جب شاہی قافلے گزرتے ہیں تو شہریوں کو سڑکوں پر روک دیا جاتا ہے۔

اسلام آباد پولیس کی پچھلے نو ماہ کی کارکردگی رپورٹ پڑھی تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ شہریوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف شاہراؤں پر روٹ لگا کر روکا گیا اور وقت ضائع کیا گیا۔

پچھلے سات ماہ میں ریلیوں، احتجاجی مظاہروں اور وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران کتنی بار روٹ لگائے گئے اور ٹریفک روکی گئی اس کے الگ اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیے۔

مذہبی ریلیوں کے لیے 86 مرتبہ، سیاسی اجتماعات کے لیے سات مرتبہ، تاجروں کی وجہ سے چار مرتبہ ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی جبکہ وکلاء کے لیے تین مرتبہ، غیر ملکی وفود کی آمد پر 19 بار جبکہ قومی اسمبلی اور سینٹ اجلاس کے لیے 18 مرتبہ مختلف سڑکیں بند کی گئیں۔

اسلام ٹریفک پولیس کے اہلکار سے شہری بحث کر رہے ہیں۔

احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کے باعث 32 مرتبہ، وی وی آئی پی مومنٹ 47 مرتبہ لا اینڈ آڈر کیلئے 146 مرتبہ روٹ لگائے گئے مختلف تقاریب کیلئے97 مرتبہ ،جبکہ دیگر موقعوں پر کل ملا کے میجر ایشوز پر 227مرتبہ اورمجموعی طور پر 686 مرتبہ اسلام آباد کی اہم شاہراؤں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔

سخت گرمی میں شہریوں کو زبردستی بیچ سڑک پر روکا گیا اور یہ سب پنجاب یا سندھ کے کسی پسماندہ شہر میں نہیں بلکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہوا۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 15 کہتا ہےکہ ملک کا ہر شہری بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مرضی اور آزادی سے کہیں بھی آ، جا اور رہ سکتا ہے تو پھر کیوں 686 بار شہریوں کو روکا گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کہا کرتے تھے کہ پروٹوکول کلچر کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن افسوس یہ سب باتوں کی حد تک ہی تھا۔

اسلام آباد جیسے پرسکون شہر میں ویسے بھی تیزی سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ٹریفک جام کے باعث سب سے زیادہ ایمبولینس متاثر ہوتی ہے۔ راستہ نہ ملنے سے کئی بار مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں دکھایا گیا کہ کیسے ایک پولیس والا ایمبولینس کا ہووٹربند کراتا ہے جس پر لوگوں نے کہا ایمبولینس میں دل کا مریض ہے جسے ہسپتال لے جایا جارہا ہےلیکن ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس کو کسی نے رآستہ نہیں دیا۔

اسلام آباد میں میٹرو بس سروس کا چار کلومیٹر روٹ زیرزمین ہے۔ فوٹو: پاکستان 24

مختلف موقعوں پر تقاریب میں جب شہر کی ٹریفک پولیس ڈائورژن پلان بھی تشکیل دیتی ہے مگر ٹریفک کے باعث ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔ بچے تعلیمی اداروں میں اور ملازمین دفاتر میں دیر سے پہنچتے ہیں۔

ہانگ کانگ میں ہونے والے احتجاج ہزاروں لوگوں میں پھنسی ایمبولینس با آسانی گزر گئی۔ وہاں موجود لوگ ایمبولینس کے آگے سے ہٹتے گئے اور ہم یہاں اس کی ویڈیو ہی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہ گئے۔


سیاسی و مذہبی اجتماعات کے دوران مختلف سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر بند کرنا اور ٹریفک پولیس کی جانب گاڑیوں کو متبادل راستوں پر ڈال دینے سے سفر کرنے والے بدترین اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جدید ترین سہولیات کے باجود اسلام آباد ٹریفک پولیس کسی سڑک پر سفر کرنے والوں مسافروں کو دو کلومیٹر پہلے نہیں بتا پاتی کہ آگے راستہ کسی وجہ سے بند کیا گیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ شہریوں کو سستے، آسان اور بلا رکاوٹ سفری سہولت کی فراہمی کے لیے بنائی گئی میٹرو بس سروس کو بھی مذہبی اجتماعات اور وی آئی پیز کی اسلام آباد آمد پر بند کر دیا جاتا ہے۔اس طرح ہزاروں کی تعداد میں میٹرو پر سفر کرنے والے متاثر ہوتے ہیں اور ان کو اس کا متبادل ذریعہ بھی نہیں ملتا۔

روٹ لگانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے یہ عوام میں غصہ، چڑچڑا پن پیدا کر رہے ہیں۔ لوگ وقت پر منزل پر نہیں پہنچ پاتے ان کو کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو باتھ روم جانے میں پریشانی ہوتی ہے۔ شاہراؤں پر نہ پانی دستیاب ہوتا نہ ہی پبلک باتھ روم بنے ہیں۔

معلوم نہیں حکمران اور سیکورٹی ادارے اس ملک کو شہریوں کو کب انسان سمجھ کر بنیادی مسائل حل کریں گے۔

آمنہ علی اسلام آباد میں نجی ٹی وی چینل سے منسلک صحافی ہیں۔
Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے