کالم

بت نہ تراشیں

نومبر 1, 2019 4 min

بت نہ تراشیں

Reading Time: 4 minutes

محمد اشفاق

مذہب کی بنیاد اس کے بانی یا موجد کی روحانی یا قلبی وارداتوں پہ استوار ہوتی ہے- یہ ایک شخص کا انفرادی تجربہ ہوتا ہے جس پر بہت سے اشخاص ایمان لے آتے ہیں۔ نہ تو یہ ایمان لانے والے ٹھوس سائنسی شہادتوں کا مطالبہ کرتے ہیں نہ ہی بانی یا موجد کیلئے کوئی ثبوت یا گواہ پیش کرنا ممکن ہوتا ہے- اسی لئے عقیدہ غالباً سائنس کا میدان نہیں ہے اور شاید اسی لئے ہمیں کوئی عقیدہ کتنا ہی بچگانہ یا مضحکہ خیز کیوں نہ لگے، اس پر ایمان لانے والوں کو ہمارے دلائل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے بلکہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ بظاہر ایک ہی نوعیت کا عقیدہ، مگر اس میں کچھ معمولی سے، فروعی یا فکری اختلاف رکھنے والے بھی بغیر کسی معقول دلیل یا شہادت کے اپنی اپنی رائے کو درست سمجھتے ہیں۔

اسی طرح انسانوں کا ایک گروہ کسی ایک اور دوسرا گروہ کسی دوسرے عقیدے کا قائل ہے تو ان دونوں کے پاس اپنے عقیدے کو درست اور دوسرے کے عقیدے کو غلط ثابت کرنے کا کوئی سائنسی یا عقلی پیمانہ نہیں ہوتا۔ جو علمی پیمانے وضع کئے جاتے ہیں، ان کا ماخذ یا بنیاد بھی کوئی نہ کوئی یا کسی نہ کسی کا روحانی تجربہ یا قلبی واردات ہی ہوا کرتی ہے- روحانی تجربات اور قلبی وارداتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ "جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا” آپ چاہیں تو سب پر ایمان لے ائیں، چاہیں تو سب کو جھٹلا دی اور چاہیں تو ان میں سے کسی ایک کو اختیار فرما لیں۔

جب بہت سے انسان کسی ایک عقیدے کو اختیار کر لیتے ہیں تو کم از کم کچھ بنیادی باتوں پر ایک عمومی اتفاق رائے تشکیل پاتا ہے- کچھ عقائد ثابت شدہ یا طے شدہ تسلیم کر لئے جاتے ہیں۔ آپ ان طے شدہ عقائد کو بھی نہ مانیں اور پھر بھی خود کو اس مذہبی گروہ کا حصہ قرار دینے پر مصر رہیں تو یہ محض ہٹ دھرمی ہے- بطور مسلمان ختم نبوت کا عقیدہ ہمارے لئے یہی حیثیت رکھتا ہے-

چونکہ ہمارے تمام تر عقائد، عبادات اور تعلیمات کا ماخذ و منبع ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے تو اب ہمارے ایمان کا شاید منطقی تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم وحی اور الہام کے سلسلے کو ان پر ختم سمجھیں۔ اگر کوئی شخص یا گروہ وحی یا الہام کی کسی بھی صورت میں خدا سے براہ راست رابطے کا دعویٰ کرتا ہے یا اصولی طور پر اس کا قائل ہے تو ہم شدت سے اسے مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ خدا سے براہ راست رابطہ اسے کسی نہ کسی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ترمیم، اضافے یا تنسیخ کا حق دیتا ہے- یہ وضاحت بھی یہاں ضروری ہے کہ بطور مسلمان ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کا اپنے خالق سے ایک ذاتی، قلبی تعلق ہے، ہم براہ راست اس سے کمیونیکیٹ کر سکتے ہیں مگر یہ ون وے کمیونیکیشن ہے، دنیا کا ہر انسان جس کا اہل ہے- اللہ کے آخری نبی کے بعد اللہ سے دوطرفہ رازونیاز کا جو بھی دعویٰ کرے گا یا اس کے امکان کو تسلیم کرے گا اس کا یہ دعویٰ یا مقدمہ دین میں نقب لگانے کی کوشش سمجھی جائے گی۔

اب یہ کوشش غوث پاک کرے یا ابن عربی، شبلی کرے یا نانوتوی، شیخ احمد کرے یا مرزا۔ اس دوطرفہ ابلاغ کو وحی قرار دیا جائے یا کشف، نبوت کو ظلی مانا جائے، غیر تشریعی یا علامتی، اس دعوے کے حامل کو امام کہا جائے، ولی اللہ یا نبی، ہر صورت، ہر حالت، ہر شخص کے معاملے میں بطور مسلمان ہمارا جواب ایک ہی ہے کہ یہ دعویٰ اور یہ مقدمہ جھوٹ ہے اور ہم اسے ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔

اب مرزا نے چونکہ اعلانیہ دعویٰ کیا تھا اس لئے وہ اور ان کے پیروکار بجا طور پر خارج از اسلام قرار پائے لیکن جن حضرات نے اصولی طور پر ایسے کسی امکان کو قبول کیا، ان کے متعلق دوستوں کا اصرار ہے کہ سیاق و سباق بھی مدنظر رکھا جائے۔ یہ سیاق و سباق بھی آسمان سے نہیں اترا یہ انہی ہستیوں کی ایجاد ہے۔ اگر ابن عربی یا غوث اعظم کو بھی سرکار انگلشیہ کی سرپرستی حاصل ہو جاتی تو کچھ عجب نہیں کہ ان کا سیاق و سباق بھی وہی ہوتا جو جناب مرزا صاحب کا تھا۔ ابن عربی اور غوث اعظم جس دور میں پائے جاتے تھے، شاید یہ اس دور کی مجبوری تھی جس نے انہیں فقط امکان ظاہر کرنے تک محدود رکھا۔ ورنہ اپنے ہی کسی مرید کے ہاتھوں ان کا قصہ تمام ہو جاتا۔

یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مجھے یہی لگتا ہے کہ یہ حضرات یا تو حماقت کی حد تک خبط عظمت کا شکار تھے، عبادات اور عملیات کی کثرت نے جنہیں ایسا دعویٰ کرنے پر مجبور کیا۔ یا پھر یہ صدق دل سے نبوت کو اکتسابی سمجھ بیٹھے تھے جو چلے کاٹنے یا راتوں کو جاگنے سے حاصل ہو سکتی ہے- یا پھر ولایت کے خودساختہ مرتبے پر فائز ہو کر انہیں جو طاقت اور رسوخ حاصل ہوا، نبوت کا امکان پیدا فرما کر انہوں نے اسے جلا بخشنے کی کوشش کی۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ وظائف اور عملیات کی کثرت انسانی دماغ پر کچھ پراسرار سے اثرات مرتب کرتی ہے، ان اثرات میں سے کچھ کے مجموعے کو ہم شیزوفرینیا کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں غیبی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں اور کھلی آنکھوں سے عجیب و غریب مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں۔

وجوہات جو بھی ہوں اور شخصیات کتنی ہی بلند مرتبہ اور متقی کیوں نہ ہوں، میں ذاتی طور پر اللہ کے آخری نبی کے بعد ہر نبوت کا دعویٰ کرنے والے، کسی بھی صورت میں نبوت کے تسلسل کو تسلیم کرنے والے، ایسے تمام دعووں یا مقدموں اور ان دعووں یا مقدموں کے سیاق و سباق پر لعنت بھیجتا ہوں۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جس طرح ابن عربی یا غوث اعظم واز جسٹ این ادر صوفی، اسی طرح غامدی از جسٹ این ادر سکالر۔ غلطی اور خطا ابن عربی اور غوث پاک سے ہو سکتی ہے تو غامدی بھی چوک سکتا ہے- صرف غامدی کے ایک عجیب و غریب موقف کے دفاع میں کتابیں کھنگال کھنگال کر پرانے صوفیوں اور سکالرز کی قابل اعتراض باتوں کو دہرانا اور پھیلانا قطعی کوئی علمی کاوش نہیں ہے- مجھے یاد ہے چند سال قبل غامدی صاحب کے نامحرم سے مصافحے کے مسئلے پر بحث چھڑی تو جناب کے پیروکار حضرت عمر کے لونڈیوں کی چھاتیاں ٹٹولنے والی روایات نکال لائے تھے۔ دین میں ہمارے لئے حجت غامدی ہے نہ غوث پاک اور نہ ہی حضرت عمر۔ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے پابند ہیں اور انہی کے رہیں گے۔

اسلام بتوں کو مٹانے آیا تھا ہم اسلام کے نام پر بت تراشنے لگ پڑے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے