پاکستان

جسٹس فائز کیس پانامہ مقدمے جیسا ہے

نومبر 11, 2019 4 min

جسٹس فائز کیس پانامہ مقدمے جیسا ہے

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران پاناما اسکینڈل کیس کاذکر چھڑ گیا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے دلائل میں کہا وہ پاناما کیس فیصلے کو بطور عدالتی نظیر پیش کریں گے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پاناما کیس طرز پر مقدمہ بنایا گیا، پاناما کیس کی تصویر بناتے وقت جس بُرش کا استعمال کیا گیا وہی بُرش جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس بناتے وقت استعمال کیا گیا۔ 

واضح رہے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاناما اسکینڈل کیس میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینےکے سبب نااہل ہوئے دو سال اور ساڑھے تین ماہ ہوچکے ہیں ۔ ماضی قریب میں عمران خان(حالیہ وزیراعظم پاکستان)جہانگیر ترین ،شیخ رشید احمد کو نااہل قرار دینے سمیت کئی مقدمات میں پاناما کیس کو سپریم کورٹ میں بطور نظیر پیش کیا جاتا رہا ۔ ن لیگ پاناما کیس فیصلے کو مولوی تمیز الدین کیس سے تشبیح دیتی رہی ۔حتیٰ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شیخ رشید نااہلی کیس میں خود یہ آبزرویشن دے چکے ہیں پاناما کیس لندن فلیٹس سے متعلق تھا لیکن نواز شریف کو اقامے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا ۔

رپورٹ: ج ع

جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار کے دلائل کا نچوڑ یہ تھا کہ صدارتی ریفرنس میں یہ خود تسلیم کیاگیا بیرون ملک اثاثےبیوی، بچوں کے ہیں۔ ریفرنس کی لینگویج میں یہ کہا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ،،بچوں نے جائیدادیں ظاہر نہیں کیں ،بیرون ملک اثاثوں کی مالیت ساڑھے سات لاکھ پائونڈ بتائی گئی ہے ،ایک جج کے دو سرکاری پلاٹ بیچے جائیں یا ایف سیکس ،ایف سیون کے گھر کی مالیت اس سے زیادہ ہوتی ہے ،ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ ،بے نامی جائیداد بنانے کا الزام بھی عائد نہیں کیا گیا۔

کیس کی سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ بابر ستار نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہا متعلقہ قوانین میں اہلیہ،بچوں کے گوشوارے جمع کرانے کا ذکر نہیں، جج بننے سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے، آ رٹیکل 209 ججز کو دیگر افراد کی نسبت زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے،قانون کے مطابق عمل کو بائی پاس نہیں کیا جا سکتا،جج کو ارٹیکل 10 اے کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی نہ سول ہے نہ فوجداری،آ رٹیکل 10 اے میں سول اور فوجداری ٹرائل کا ذکر ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا حقائق کے درست جائزے سے جج کا بنیادی حق ختم نہیں ہو سکتا۔بابر ستار نے دلائل میں کہا افتخار چوہدری کیس کا فیصلہ آیا تو آرٹیکل 10 اے آئین کا حصہ نہیں تھا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا آپ سے سوال بار ثبوت سے متعلق بھی ہوگا،یہ نہ بھولیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوتی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان قانون دیگر انتظامی ٹربیونلز سے زیادہ جانتے ہیں،سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہونے والے جج کا احترم بھی سپریم جوڈیشل کونسل سے زیادہ کوئی نہیں کرتا،صرف ٹیکس کمشنر پر معاملہ چھوڑ دینا آرٹیکل 209 کیساتھ مذاق ہے، ممکن ہے کونسل ٹیکس کمشنر کو مناسب فورم قرار دیتے ہوئے فیصلہ کرنے دے۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا کہ ٹیکس قوانین کے تحت آج تک کسی سول سرونٹ کیخلاف کاروائی نہیں ہوئی،سپریم جوڈیشل کونسل نے جائزہ لینا ہے کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا کہ نہیں،کیا جج کا بلڈنگ کوڈ اور ٹریفک چالان بھی جج کےمس کنڈکٹ میں آ ئے گا؟ یقینا جج کا ٹریفک پولیس کو کہنا کہ وہ جج ہے چالان نہیں ہو سکتا غلط ہوگا،اس کیس میں قانونی مراحل کو اپنایا نہیں گیا، ٹیکس اتھارٹی نے اپنے اختیارات کادرست استعمال نہیں کیا،کیس میں صرف ٹارگٹ کو مد نظر رکھ کر اقدامات کیے گئے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا ریفرنس صرف ایک کے خلاف نہیں دوسرے جج کے خلاف بھی ہے۔ایڈووکیٹ بابر ستار نےد لائل میں کہا جسٹس قاضی فائیز عیسی کیس کی کہانی بھی پانامہ طرز کی ہے،پانامہ کیس میں بھی بیوی بچوں کے اثاثوں پر بات ہوئی ،لیکن اس کیس میں نہ تو حقائق کو مد نظر رکھا گیا اور قوانین کو ، جسٹس عیسی کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ نے دستاویز سے بتاناہے کہ جسٹس عیسی کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں ،جس طرز کا خرچ ہے وہ آ مدن کے مطابق نہیں، کیس میں جج کے مس کنڈکٹ کا الزام ہے۔ بابر ستار نے دلائل میں مزید کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فائلر ہیں۔ متذکرہ جائیداد 2013 کی ہے تو ٹیکس گوشوارہ بھی اسی سال کا ہو گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کیس میں ایک جائیداد 2004 اور دو جائدادیں 2013 کی ہیں،عملی طور پر کیس میں تین ٹیکس گوشواروں پر بات ہوگی،پراپرٹی 2004 کی ہے تو ٹیکس قوانین کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔

ایڈووکیٹ بابر ستار نے مزید بتایا پانچ اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنے،کیا سپریم کورٹ میں آنا نئی تعیناتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آنے پر ہائی کورٹ کا کنڈکٹ ختم ہو جاتا ہے۔ بابر ستار نے جواب دیا جی بلکل یہ میری لیگل معروضات کا حصہ ہے ،ساڑھے سات لاکھ پچاس ہزار پائونڈ مالیت کی بیرون ملک جائیدادوں کی کل مالیت بتائی گئی جو اسلام آباد کی جائیدادوں کی مالیت سے زیادہ نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا الزام جائیدادوں کی مالیت کا نہیں بلکہ ذریعہ آمدن کا ہے۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا یہ عدالت ایگزیکٹو کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کا جوڈیشل جائزہ لینے کے لیئے بیٹھی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ نہیں لے سکتی،صدر مملکت کے سامنے منی لانڈرنگ کا معاملہ نہیں آیا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ریفرنس اس قابل نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل اسکو دیکھے۔ 

بابر ستار نےجواب دیا صدر مملکت نے اگر آزاد زہن استعمال کیا ہوتا تو ایسٹ ریکوری یونٹ اور ایف آئی اے کی رپورٹ پر معاملہ جوڈیشل کونسل کے سامنے نہ آتا، ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اثاثہ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، ہمارا موقف ہے کہ نہ اثاثے چھپائے گئے اور نہ غلط بتائے گئے۔ ریفرنس کے بعد جواب الجواب میں بے نامی کا الزام لگایا گیا۔ صدر کے سامنے جج کے بچوں کی ذرائع آ مدن سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچے جائیداد خریدتے وقت بالغ تھے۔ ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا اگر میرے والد جج ہوتے تو شاید انہیں بھی شوکاز نوٹس مل جاتا، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا کام پلاننگ اور ریسرچ ہے، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے جواب کے بعد شوکاز میں وہ چیزیں شامل کی گئیں جو ریفرنس میں شامل نہیں تھیں۔

مقدمے کی سماعت کل دن ساڑھے گیار ہ بجے دوبارہ ہوگی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے