کالم

جبر پر مبنی سیاسی بندوبست

نومبر 15, 2019 2 min

جبر پر مبنی سیاسی بندوبست

Reading Time: 2 minutes

قبائلی معاشرے میں جہاں معتبر و معزز ہونے کا معیار اونچا خاندان تھا، وہاں فطری بات تھی کہ سیاسی و حکومتی نظام بھی انہی معیارات پر معززین قرار پانے والوں کی شمولیت پر مبنی کسی بندوبست پر ہو۔

ایسے معاشرے میں یہ اعلان کرنا کہ کسی گورے کو کالے، عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے ایک انقلابی بات تھی۔ ایسی انقلابی بات مجمع میں کہنے کے لیے لازم تھا کہ کہنے والا عرب کے مرکز کو فتح کرے اور بیس سال سے زائد کی کامیاب سیاسی، سماجی و معاشرتی جدوجہد اپنے ساتھ لیے ہوئے ہو۔

ایک اصول یا پرنسپل سامنے رکھ دیا گیا کہ رب کی نظر میں تم سب برابر ہو اور معزز بننے کا ایک واضح معیار ہے۔ لیکن سماجی تبدیلی آتے آتے ہی آتی ہے۔ اس وقت کے عرب قبائلی سماج میں تو اہل قریش اپنی پیدائش کے حوالے سے معزز تھے تو بس تھے۔۔۔سو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ امام ان میں سے ہی ہو۔ معاشرے کی ڈائنامکس کو ہر باشعور آدمی سمجھ کر ہی کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔

قبائلی معاشروں میں اونچے خاندان سے چنا ہوا امیر، دیگر معززین یا خاندانی سربراہان سے مشاورت کر کے اہم فیصلے لیتا تھا (اہم فوجی مہم، معاشی پالیسی وغیرہ بغیر ان عمائدین کے تعاون کے ممکن ہی نہ ہو سکتے تھے)۔ یہی بات اصولی بھی تھی۔ سو یہ مشاورت بھی ایک اصول یا پرنسپل قرار پائی۔

وقت بدلا۔ حالات بدلے۔ قبائلی معاشرت ختم ہوئی۔ معزز ہونے یا عوام الناس کا اعتماد/احترام اینجوائے کرنے کا معیار فقط اونچا خاندان نہ رہا۔ مگر بہت سے لوگ وہیں پیچھے کہیں قبائلی زمانے میں رہ گئے۔

نتیجہ یہ ہے کہ جدید سیاسی نظاموں پر تنقید خوب کرتے ہیں۔ مگر اپنے طور پر کوئی متبادل سامنے لانے سے یکسر قاصر ہیں۔

ایک اصول اگر یہ سمجھ لیں کہ کوئی بھی ٹھوس سیاسی بندوبست بغیر ان لوگوں کا اعتماد یا کانفیڈینس جیتے نہیں چلایا جا سکتا جن لوگوں نے اس کے زیر نگرانی رہنا ہے۔ استحکام تبھی ممکن ہے اگر عوام کی امنگوں کی نمائندگی کسی نہ کسی سطح پر ہوتی رہے۔ جب عوام سمجھتے تھے کہ انسان خاندان سے معزز ہوتا ہے تو امام قریش سے لانے پر اتفاق ہوا تھا۔ عوام اب کیا سمجھتے ہیں، اس کو سراسر فراموش کر کے آپ اگر یہ رٹ لگائیں:

“ہمیں بس اسلامی شریعت سے غرض ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ لائے، آمر یا کوئی اور! سول بالادستی کوئی قابل اعتناء کاز ہے ہی نہیں۔”

تو آپ ایک بنیادی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جدید دور میں جبر پر مبنی کتنے سیاسی بندوبست “کامیاب”قرار دیے جا سکتے ہیں؟ جو نظام دنیا میں اس وقت بالکل smooth طریقے پر چل رہے ہیں ان کی ریڑھ کی ہڈی عوامی نمائندہ حکومتیں نہیں تو اور کیا ہے؟

اسلام پسندوں کی اس موضوع پر زمینی حقائق سے بالکل کٹی ہوئی آراء جو اکثر جبر و استحصال پر مبنی ناجائز سیاسی/حکومتی بندوبستوں کے پلڑے میں وزن ڈالے رہتی ہیں ایک بڑی وجہ ہیں کہ پاکستان میں مذہب اور سیاست عملی طور پر جدا ہوتے جا رہے ہیں۔

اگر یہ برائے نام اسلام کے نام لیوا قبائلی دور سے باہر تشریف نہیں لاتے تو یہ اسلام کا نقصان تو کر سکتے ہیں بھلا ان سے ہونے کا نہیں ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے