پاکستان

جسٹس فائز کیس میں کیا ہوا؟

نومبر 19, 2019 4 min

جسٹس فائز کیس میں کیا ہوا؟

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے بیان کو قانون کے تناظر میں دیکھ لیں گے، کوئی بھی مکمل نہیں، ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں ۔صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ باتیں کہی۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کے بیان کا تذکرہ چھڑ گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا وزیر اعظم عمران نے کل چیف جسٹس (آصف سعید خان کھوسہ )اور مستقبل کے چیف جسٹس (گلزار احمد)کو مخاطب کرکے بیان دیا، وزیر اعظم نے بیان میں امیر غریب کے لیے الگ الگ قانون کی بات کی، وزیر اعظم نے چیف جسٹس اور مستقبل کے چیف جسٹس سے معاملہ کی درستگی کی استدعاکی۔

وزیراعظم کے حالیہ بیان کا حوالہ دینے پر جسٹس عمر عطا بندیال اور ایڈووکیٹ بابر ستار کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ دس رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈوکیٹ بابر ستار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سیاسی بیانات کے لیے یہ عدالتی روسٹرم استعمال نہ کریں،کوئی بھی مکمل نہیں ہے، ہر صورت بہتری کی گنجائش ہوتی ہے،ماتحت عدلیہ کے ایک جج کی وجہ سے پوری عدلیہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی، اس روسٹرم پر وزیراعظم اور ان کی اہلیہ بارے بات نہ کریں، اپنے کیس کی حد تک بات کریں ،وزیر اعظم کے بیان کو قانون کے تناظر میں دیکھ لیں گے، عدلیہ کو وقار اور عوام کو اعتماد کو بحال رکھنا ہے۔

ایڈووکیٹ بابر ستار نے جواب دیا میں سیاسی بات نہیں کر رہا،عمومی طور پر عدالتی فیصلہ سے ایک فریق خوش اور ایک ناخوش واپس جاتا ہے، وزیر اعظم کے کل کے بیان سے لگا وہ خوش نہیں ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک تاثر قائم ہے ،جب ایک فریق عدالتی فیصلے سے ناخوش ہوتا ہے اس پر تنقید کرتا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں وزیراعظم بھی ایک حالیہ فیصلے سے خوش نہیں تھے جب انہوں نے یہ بیان دیا۔

واضح رہے وزیر اعظم عمران خان نے پیر کے روز خطاب میں کہا تھا چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد عدلیہ کے بارے میں یہ تاثر دور کریں کہ طاقتور اور کمزور کیلئے الگ قانون ہے ۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد پاناما کیس سننے والے پانچ رکنی بنچ کا حصہ تھے ۔پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے چیف جسٹس صاحبان(چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ،جسٹس گلزار احمد) نے سپریم کورٹ کے سینئر جج کی حیثیت سے اکیس اپریل کو پاناما کیس کے فیصلے میں ناول گاڈ فادر کا ذکر کرکے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ذرائع کے مطابق قبل ازیں آج منگل کی صبح چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی وزیر اعظم خان عمران خان کی تقریر بارے آبزرویشنز دیں ۔

صدارتی ریفرنس کیخلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران پاناما کیس کا بھی حوالہ دیا گیا ۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا پاناما فیصلے کے مطابق مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں ،زیر کفالت نہ ہونے پر نواز شریف مریم کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل دو سو نو کے تحت تحفظ نہیں مانگ رہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چاہتے ہیں ٹیکس حکام الزامات کی انکوائری کریں ،صدر مملکت کے سامنے کسی جج کیخلاف مواد شک وشبہ سے بالاتر ہونا چاہیے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا اثاثے چھپانے کا سوال تب پیدا ہوگا جب انھیں ظاہر کرنا لازم ہو ،اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پر جج کا احتساب نہیں ہوسکتا ، بلواسطہ مس کنڈکٹ کی خلاف ورزی یا عام قانون کی خلاف ورزی پر متعلقہ عدالت کا فیصلہ ضروری ہے ، پرائیویٹ کنڈکٹ کا جائزہ لینے کیلئے جج کو نوٹس جاری کیا جانا چاہیے ۔

بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کیا آپ کو معلوم ہے جج صاحبان کیخلا ف کتنی شکایات آتی ہوتی ہیں اور کتنی پر کارروائی ہوتی ہیں ؟۔اس پر ایڈووکیٹ بابر ستار بولے جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت شکایات اور مکمل تفصیلات کے حصول کیلئے ایک درخواست زیر سماعت ہے ۔جسٹس عمر عطا ءبندیال نے کہا ججز کیخلاف کئی شکایات بھیجی جاتی ہیں ،سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار محض نمائشی نہیں ہے ،کونسل آزادنہ اپنا ذہن استعمال کرتی ہے ،کونسل نیک نیتی کی بنیاد پر آمدن کا ذریعہ پوچھتی ہے ،آپ کی کونسل پر بد اعتمادی کیوں ہے ۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا ہم نے جوڈیشل کونسل پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا ،ہمارا مقدمہ یہ ہے کیا صدر نے ریفرنس بھیجنے سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کیے ،میڈیا میں جج اور اُسکے اہل خانہ کیخلاف مہم چلائی گئی ۔جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا یہ بدنیتی کا معاملہ ہے اس پر ایڈووکیٹ منیر اے ملک با ت کر چکے ہیں ۔

ایڈووکیٹ بابر ستار نے دلائل میں مزید کہا صدارتی ریفرنس میں یہ نہیں بتایا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اثاثے کیوں ظاہر نہیں کیے ،جسٹس قاضی فائز بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کرتے تھے ، یہ الزام بھی نہیں لگایا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لندن فلیٹس خریدنے کے قابل نہیں تھے ،لندن فلیٹس چھپانا مقصد ہوتا تو آف شور کمپنی بنائی جاتی،،ایسا مواد پیش نہیں کیا گیا جس سے ثابت ہو لندن اثاثے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملکیت ہیں۔جسٹس عمر عطاءبندیال بولے جسٹس فائز عیسی پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں کے پاسپورٹ سرکاری ہیں ۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک بولے دونوں بچوں کے پاس ہسپانوی پاسپورٹ ہیں ۔کیس کی سماعت آئندہ ہفتے بدھ تک ملتوی کردی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے