متفرق خبریں

عدالت کا ”سپاہیانہ“ سوال کا عاجزانہ جواب

نومبر 20, 2019 4 min

عدالت کا ”سپاہیانہ“ سوال کا عاجزانہ جواب

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا ہے عام طور پر یہ بات پوچھی جاتی ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے والوں سے کیابرتاؤ کیا جائے گا؟ ہمارا ان کو عاجزانہ جواب ہے تو پھر کیا ہم آئین پاکستان کیساتھ فٹ بال کھیلیں؟

رپورٹ: جہانزیب عباسی

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میںپانچ رکنی لارجر بنچ نے فاٹا ،پاٹا ایکٹ کیس کی سماعت کی ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے اگر حراستی مراکز اور فوج کے امور کی انجام دہی کے قوانین بارے آئین پاکستان کے تحت مطمئن نہ ہوئے تو سمھیں پورا سسٹم گیا۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انو ر منصور خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل انور منصور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آئین میں قانون سازی کی وفاقی فہرست کو نظر انداز کردیں ۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں آج دلائل نہیں دے رہا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے اگر آپ نے دلائل نہیں دینے تو پھر ہم پانچ جج صاحبان یہاں کیوں بیٹھے ہیں ۔چیف جسٹس بولے اٹارنی جنرل عدالتی اداب کے پیش نظر آئے ۔اٹارنی جنرل نے کہا میرے خلاف مکمل جارحانہ رویہ اپنایا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب تشریف رکھیں صوبوں کے قوانین زیر سکروٹنی ہیں ،ہم کسی اور فریق مقدمہ کو سن لیتے ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرٹیکل 245کا حوالہ دیتے ہوئے کہا بیرونی جنگی جارحیت اور خطرات کے پیش نظر وفاقی حکومت فوج کو بلا سکتی ہے،آرٹیکل 245کا دوسرا حصہ پاک فوج کا سول انتظامیہ کی مدد سے متعلق ہے ،آئین کے مطابق انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہوگی ،آئین میں قانون سازی کی وفاقی فہرست ون(فیڈرل لیجیس لیٹیو لسٹ) کے مطابق قانون بنانا وفاق کا کام ہے ،پچیسویں ترمیم کے بعد نیا نظام آیا ،پچیسویں ترمیم میں نہ سابقہ قوانین کو تحفظ دیا گیا نہ ہی یہ کہا گیا پرانے قوانین کا تسلسل برقرار رہے گا ،اس کیس میں بڑا اہم سوال ہے قوانین صوبوں نے بنائے لیکن صوبوں کو اختیار ہی حاصل نہیں تھا کہ وہ قانون بنائے ۔اٹارنی جنرل نے کہا میں اس حوالے سے عدالتی معاونت کروں گا ،وفاق اور صوبوں کو قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے ۔چیف جسٹس بولے یہ وہ سوال ہے جہاں سب کچھ تھم گیا ہے بظاہر یہ بڑا خلا ہے ۔

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کے پی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا آپ کی یہ دلیل ہے جہاںآئین میں قانون سازی کی وفاقی فہرست خامو ش ہو وہاں خلاءپُر کرنے کیلئے صوبے قانون بنا سکتے ہیں ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چونکہ آپ ہماری معاونت کی بجائے ہم آپ کی معاونت کررہے ہیں تو یہ دیکھ لیں آرٹیکل 146کے تحت وفاقی حکومت صوبے کو اختیار سونپ سکتی ہے وہ قانون بنائے ۔جسٹس گلزار حمد نے کہا اس سوال پر بھی معاونت کریں کیا حکومت نے اندورنی جارحیت کا اعلان جنگ کیا گیا تھا ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ مقدمہ آئینی نکات کیساتھ ساتھ ہزاروں انسانوں اور اُن سے جڑے لاکھوں انسانوں کی آزادی سے متعلق ہے ،قانون کی وزارتوں کو جاکر کھنگالیں ،سب کچھ کھود کر ہماری معاونت کریں ۔

چیف جسٹس نے کہا فوج کے امور اور حراستی مراکز سے متعلق تین قوانین بنائے، 2019کا آرڈیننس تو ایسے بنایا گیا جیسے اس سے قبل کوئی قانون تھا ہی نہیں ،ہم ایسی صورتحال میں سب کچھ نظر انداز نہیں کر سکتے ،میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن قابلیت کا کافی فقدان پایا جاتا ہے ۔درخواست گذار کے وکیل نے کہا پچیسویں ترمیم میں کسی قانون کو تحفظ دینے کی شق شامل نہیں کی گئی ۔ایڈوکیٹ انعام الرحیم نے بتایا صوبے قانون نہیں بنا سکتے ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آئین کے تحت ہمیں مطمئن نہ کیا گیا تو سمجھیں پورا سسٹم گیا ۔کے پی حکومت کے وکیل نے کہا وفاقی حکومت کو قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برجستہ بولے غلط اصطلاح استعمال نہ کریں قانو ن پارلیمنٹ بناتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا یہ سوال بھی ہے کیا بغیر ٹرائل ،بغیر ثبوت ،بغیر شواہد اور بغیر چارج کے کسی کو لامحدود وقت تک حراست میں نہیں رکھا جاسکتا ،پہلا قدم دائرہ اختیار سماعت سے متعلق ہے ،تین ماہ تک کسی کو حراست میں رکھا جاسکتا ہے ،پھر نظر ثانی کور ٹ میں مزید زیر حراست رکھنے یا نہ رکھنے کا ذکر موجود ہے ،کسی کو بغیر شواہد اور بغیر ٹرائل آٹھ ماہ سے زیادہ حراست میں نہیں رکھا جاسکتا ،ہم زیر حراست شخص کے مقدمے کا جائزہ لینے والی نظر ثانی باڈی کا مکمل ریکارڈ طلب کرسکتے ہیں ،یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کیا تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ۔

چیف جسٹس آصف سعید خان نے مزید کہا ایک مقدمے میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا مجرم کو کھلے عام پھانسی دی جائے ،ہم نے فیصلے میں لکھا قرآن اور آئین پاکستان نے انسان کی حرمت کو تحفظ دیا گیا ہے ،آرٹیکل چودہ نے انسان کی حرمت کو تحفظ دے رکھا ہے ،یہ آئینی شق بنی نوع انسان کیلئے ہے ،پہلے انسان کو کم تر سمجھا جاتا تھا ،بد ترین شخص کو بھی آئین پاکستان نے انسان کی حرمت کے تحت تحفظ دیا ہے اُسے بنیادی حقوق حاصل ہیں ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہامیں بڑے احتیاط سے یہ بات کرنے لگا ہوں ،عام طور پریہ بات کہی جاتی ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کے سروں کیساتھ فٹ بال کھیلنے والوں کیساتھ کیا برتاﺅ کیا جائے گا؟ میرا انھیں عاجزانہ جواب ہے پھر کیا ہم آئین پاکستان کیساتھ فٹ بال کھیلیں ؟۔کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے