کالم

مریم نواز ، اپنا فالو بیک واپس لے لیں

دسمبر 9, 2019 3 min

مریم نواز ، اپنا فالو بیک واپس لے لیں

Reading Time: 3 minutes

مدثر حسن

میں نے زندگی میں مریم نواز شریف کو صرف ایک دفعہ دیکھا ہے وہ بھی پچھلے الیکشن میں۔ جب وہ لاہور کے ایک گنجان آبادعلاقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار قومی اسمبلی ملک افضل کھوکھر کی کمپین کے لیے آئیں۔ ہماری گلی میں کافی شور تھا اور یہی شور مجھے گھر سے باہر کھینچ لایا۔ چند لمحوں میں ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر میں مریم نواز شریف ارد گرد کے لوگوں کو سلام کرتی گزر گئیں۔ نواز شریف کی بیٹی تھی تو بس یہی تعارف کافی تھا۔ اس کے علاوہ نہ کبھی ان سے ملا نہ کوئی تعارف ہے ۔

مسلم لیگ ن کی حکومت آئی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ مریم نواز شریف نے ٹوئٹر کو اپنا محاذ بنا لیا جہاں سب جوان لیگیے مریم نواز شریف کو ٹیگ کرتے اور بدلے میں ری ٹویٹ پاتے جس سے احساس ہوتا کہ یہی کمی ہے سیاست دانوں میں کہ وہ عوام سے براہ راست رشتہ قائم نہیں رکھتے اور مریم نے اپنے ورکروں سے ایسا رشتہ جوڑا تھا کہ شہباز شریف اور نواز شریف کبھی کبھی بے معنی لگنے لگتے تھے۔ ایک دن میں نے کوئی تعریفی بات لکھی تو مریم نواز شریف صاحبہ نے مجھے بھی فالو کر لیا۔ بس پھر کیا تھا اتنا غرور آ گیا کہ سب دوستوں کو دکھایا کہ دیکھو وزیر اعظم کی بیٹی نے ٹویٹر پر فالو کیا ہے جس کا مطلب یوں بھی تھا کہ "بھائی” کے ن لیگ میں گہرے تعلقات ہیں۔ اس کے بعد مریم نواز شریف سے ورکروں والا ایسا رشتہ نبھایا کہ خاندان کے کئی لوگوں سے ن لیگ کے لیے لڑائی مولنی پڑی اور اس فالو بیک کے چکر میں کئی اچھے دوست دشمنیوں پر اتر آئے۔ کزنز بات کرنا چھوڑ گئے کہ پٹواری جاہل ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

قصہ مختصر یہ کہ پانامہ سکینڈل ۔ محترمہ کلثوم نواز شریف کی وفات اور مریم نواز شریف کا اصولوں کی خاطر جیل چلے جانا چند ایسے واقعات ہیں جن کی گونج بہت لمبے عرصے تک تاریخ پاکستان میں رہے گی۔ مریم نواز شریف نے یہ تمام صعوبتیں بہادروں کی طرح جھیلیں اور ان قوتوں کو خوب آنکھیں دکھائیں جو انہیں کمزور کرنے پر دن رات ایک کیے ہوئے تھیں۔ کیسے کیسے سفاکانہ ذاتی حملے کیے گئے کس طرح کیچڑ اچھال کر انہیں بد نام نہیں کیا گیا۔ کیسے عوام اور قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایک پرائیوٹ ٹرانزیکشن (پراپرٹی ٹرسٹ) کی آڑ لے کر اسے جیل بھیجا گیا مگر وہ اس قدر مضبوط اعصاب کی مالک تھیں کہ نہ خود ٹوٹی نہ اپنے ورکرز کو ٹوٹنے دیا ۔ بلکہ یوں لگتا تھا کہ ن لیگ میں اب صرف مریم نواز شریف ہی شیر کی تعریف پر پوری اتر رہی ہیں۔


اس سارے قضیے میں مجھ سمیت بہت سے معصوصوں کے ساتھ ایک دھوکہ یہ ہوا کہ ہم نے ان سطور پر سوچنا شروع کر دیا جن کا لکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ شعور کی اس منزل پر پہنچا دیا گیا جہاں ہمیں ستر برس کی کمزوریوں کا حل صرف یہ سوجھا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی امور سے دور کر دینا ہی اس ملک کی ترقی کے لیے واحد نسخہ رہ گیا ہے سولین بالا دستی اور ووٹ کو عزت دو کی ایسی دوائی پلائی گئی کہ دن میں کئی کئی بار ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں والا کلام سننا پڑا۔ اس دھوکے میں مجھ سمیت کئی فالو بیک والے مرد مجاہد بارہا سرخ لائن عبور کر گئے مگر چونکہ یہ گمان تھا کہ جب لیڈر ایک لائن پر چل رہا ہے تو اسے فالو کرنے میں عزت بھی ہے اور عین وطن عزیز کی خدمت بھی۔

اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین کچھ ایسے ہوا کہ ایک دن غیبی کمک آن پہنچی ۔ چچا شہباز نے کوئی جادو دکھایا اور آن کی آن میں ضمانتیں ہوئیں اور جہاز یوں اڑ کر دیار غیر پہنچے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ مجھ سے کئی فالو بیک مجاہد انگلیاں منہ میں دبائے حیرانگی سے دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ اتنی لمبی لڑائی کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ کیا ہم نے ایک ایسی قوم نہیں بننا تھا جس نے اپنے ووٹ کو عزت دلوانی تھی ۔ کیا ہم نے ترکوں کی طرح سویلین بالا دستی والا چورن نہیں کھانا تھا۔ کیا ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ شیر پاکستان سب کچھ برداشت کر لے گا مگر اپنے ارادوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔ کیا ہمیں اکبر الہ آبادی کا وہ شعر بھول جانا ہے جس میں ذلت سے جینے پر موت کو ترجیح دی گئی تھی۔

مریم نواز شریف کا خاموش ٹوئٹر اکاؤنٹ مجھے بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم سب کہیں نہ کہیں اپنے ذاتی دائرے میں واپس آ جاتے ہیں جہاں قوم ملک، آئین اور سب چیزیں پس پشت ڈال کر صرف اپنی صحت عزیز ہو جاتی ہے۔ کیا سیاست ایسے ہی ہوتی ہے ۔ کیا لیڈرز ایسے ہوتے ہیں۔ کیا اپنے فالورز کو دور جنگل میں چھوڑ کر خود پتلی گلی سے نکلنے والے کا سیاسی مستقبل ہوتا ہے۔ اگر میرے سوالوں کے جواب مریم نواز شریف کے پاس ہیں تو وہ ہمیں ملنے چاہئیں ورنہ مریم نواز شریف کا فالو بیک واپس کر دینے میں ہی عافیت ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے