پاکستان24 متفرق خبریں

’ملک میں اظہار رائے کی آزادی نہیں‘

دسمبر 10, 2019 3 min

’ملک میں اظہار رائے کی آزادی نہیں‘

Reading Time: 3 minutes

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بھٹو فاؤنڈیشن کے زیراہتمام زیبسٹ میں سیمینار سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا ہے کہ کسی بھی ریاست میں پریس کا کام طاقتور کا احتساب کرنا ہے۔ ہمارے آئین میں اظہار رائے کی ازادی لیکن اس کو یقینی نہیں بتا سکتے۔ پارلیمان میں سوائے گالی کے کسی کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان کی زمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ کرے۔ لوگوں کو محنت کا صلہ دینا ہے اور ان کا معاشی تحفظ کرنا ہوگا۔

’آج بھی ملک میں صاف شفاف الیکشن نہیں ہو سکے، ہر الیکشن میں عوام کے ووٹو پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اس کو روکنا ہو گا۔ جب عوامی نمائندے منتخب ہوتے عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں۔‘


بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے پھر سے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی مشکل سے حکومت کر رہی ہے وسائل مہیا نہیں کیے جا رہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین ایگری کلچر بل پہلی دفعہ سندھ حکومت نے مسودہ تیار کرکے پاس کرانے جارہی ہے۔ سندھ کابینہ نے طلبا یونینز کی بحالی کا قانون منظور کیا ہے۔ کابینہ کے اس فیصلے میں سندھ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کا اہم کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ایف اور سندھ کے طلبا کے احتجاج کے بعد سندھ حکومت طلبا یونینز کی بحالی مجبور ہوئی۔ کشمیر کے لیے ہمیشہ اواز اٹھاتے ہیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود اادیت دیا جائے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نوجوان انسانی حقوق کے قائل ہیں۔ پاکستان میں انسانی کی صورت حال اچھی نہیں۔ آئین جو انسانی حقوق کی چھت ہے اس پر بار بار حملے ہو رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ جب طلباء، صحافی یا سیاسی کارکن اپنی رائے اظہار نہیں کر سکتے تو پھر کہاں کھڑی ہے آزادی۔ ’اگر رائے کی آزادی نہیں تو باقی آزادیوں کا تو سوچنا محال ہے۔ میرے سمیت سب پر ذمہ داری ہے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ جب قومی اسمبلی میں ممبر پارلیمنٹ کو بولنے کی آزادی نہ جائے اور جب معیشت پر بات کرنے سے بدلے میں گالیاں دی جاییں تو سمجھ لیں آمریت ہے۔ طاقت اور ذرائع ایک ہی جمع ہو رہے ہیں ہم برابر تقسیم کی بات کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ ملک کے اندر انسانی حقوق کے مختلف ایشو موجود ہیں۔ ملک سے تاریکی کا خاتمہ نوجوانوں کی جدو جہد سے ختم ہو گی۔ ریاست کے ادارے آئین میں رہ کر کام نہیں کر رہے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ آئین کی تشریح اس طریقے سے کرے تاکہ اداروں کا وقار میں اضافہ ہو۔ جوڈیشل میں ریفارم کرنے کی ضرورت ہے۔ اظہار رائے کی ازادی ضروری ہے لیکن ہم نے نئی اصطلاح گھڑی ہے ففتھ جنریشن وار۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان غیر محفوظ ملک بن گیا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ تھیوی تبدیل کرنے کی ضورت ہے۔

افراسیاب خٹک انسانی حقوق کے عالمی دن سے کی مناسبت سے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے خواتین کو اٹھایا جارہا ہے، ڈان اخبار کے باہر غنڈے بھیج کر احتجاج کرایا جاتا ہے۔ ریاست کی ایک ذمہ داری ہے پاکستان یوگو سلوایہ بننے جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے خلاف سازشیں ہو رہی ہے اسٹیبلشمنٹ نے آئین کو تسلیم نہیں کیا، وفاق اور جمہوریت کے لیے ہمارے اباو اجداد نے بہت قربا نیاں دی ہیں، اٹھارویں آئینی ترمیم کو چھیڑا گیا تو چھوٹے صوبے برابری مانگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں کمزور ہیں بلاول بھٹو نوجوانوں کو ایوب خان کے خلاف کی طرز پر باہر نکالیں۔ طلبا یونینز کی بحالی چاہتے ہیں سندھ حکومت طپبا یونیز بحال کر کے اچھا اقدام اٹھایا ہے

’ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ غائب ہیں، میڈیا پر پابندیاں ہیں، نیب کے نام پر کارروائیاں ہو رہی ہیں، روزنامہ ڈان کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔‘

افراسیاب خٹک کے مطابق ’ملک جب ٹوٹتے ہیں تو اندرونی معاملات 80 فیصد جبکہ بیرونی 20 فیصد ہوتے ہیں۔ برمودا ٹرائی اینگل والے 18 ویں ترمیم نہیں مان رہے۔ اگر 18 ویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو ہم چھوٹے صوبے قومی اسمبلی میں برابری مانگیں گے۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے