کالم

کالے کوٹ والے شرپسند اور عوام

دسمبر 12, 2019 3 min

کالے کوٹ والے شرپسند اور عوام

Reading Time: 3 minutes

انعم ملک

11 دسمبر کا دن لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی کے مریضوں کے لیے دہشت اور خوف لے کر آیا۔ ڈاکٹروں پر کالے کوٹ والوں نے حملہ کیا جس کی زد میں وہاں موجود سینکڑوں مریض بھی آئے۔ اب کچھ دن بعد سب کچھ پھر ٹھیک ہو جائے گا، صلح صفائی، مقدمات واپس، معافی تلافی مگر یہ صرف وکیلوں اور ڈاکٹروں کے لیے ہوگا جن مریضوں اور ان کے لواحقین کو عذاب میں دھیکلا گیا ان کے لیے کچھ نہیں ہوگا کہ عام لوگوں کا اس ملک میں یہی مقدر کا لکھا ہے۔


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر ایسی جنگیں برپا ہوتی ہیں جن میں دشمن باہر والے نہیں بلکہ اپنی ہی نئی ریاست مدینہ کے طاقتور عناصر ہوتے ہیں۔

قانون کے وہ رکھوالے جنہیں وکیل کہا تھا اور جو اب پانچ سال دنیا جہان کے قوانین پڑھ کر وکالت کی سند حاصل کرتے ہیں اور ہر معاملے کو طاقت و زبردستی کے بجائے قانون کے ذریعے طے کرنے پر یقین رکھتے ہیں ایک بار پھر تشدد کے لیے نکلے اور وہ بھی ایک ہسپتال کے عملے پر۔

سنا تو یہی تھا کہ حالت جنگ میں بھی دشمن ہسپتال پر حملہ نہیں کرتا مطلب جنگ کے بھی کچھ قانون، قاعدے و ضابطے ہوتے ہیں لیکن یہاں قانون کے جنگ لڑنے والوں نے ہر اصول کو توڑ دیا۔


وکلاء، ڈاکٹر، پولیس اور سیاست کی جنگ میں جان کے نذرانے ہمیشہ کی طرح عوام کو ہی دینے پڑے آخر کیوں؟ لڑائی اگر وکلاء اور ڈاکٹرز کی تھی تو نشانہ مریض کیوں بنے؟ ہسپتال میں گھس کر مریضوں کے آکسیجن ماسک اتار کر کس سے بدلہ لیا گیا؟ پولیس کو اگر معلوم تھا کہ وکلاء حملہ کرنے لگے ہیں (عینی شاہدین کے مطابق) تو پہلے ہی انہیں ہسپتال جانے سے کیوں نہیں روکا گیا؟ کیا حکومت کو پیدا ہونے والی اس صورتحال کا پہلے سے علم نہیں تھا؟ اگر نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟

کیا وکلاء برادری اتنی طاقتور ہوگئی کہ ہمارے سیاست دان بھی ان کے ہاتھوں سرعام تشدد کا نشانہ بنے گے؟ وکلاء کو روکنے کے لیے شیلنگ اتنی زیادہ ضروری ہوگئی تھی کہ دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کی آئی سی یو اور وارڈز تک کی حدود میں شیلنگ کرنا پڑ گئی پھر چاہے وکلاء نے ماسک نکال کر ان کی جان لی ہو یا پولیس کی شیلنگ نے مرے تو پھر مریض ہی، نا کوئی ڈاکٹر مرا نا کسی وکیل کی ہلاکت کی خبر آئی نا کسی پولیس والے کی شہادت ہوئی ہاں شاید کوئی ایک آدھ زخمی ہوا ہو لیکن جان کی بِلی عوام کی دی گئی. کسی پرائیویٹ ہسپتال میں یہ سارا تماشا کیوں نہیں کیا؟ سرکاری ہسپتال میں ہی کیوں آئے جہاں ملک کا 80٪ غریب طبقہ آتا ہے؟ مطلب جان وی لینی تے غریب دی، کیونکہ مہنگائی، برروزگاری اور غربت سے تو وہ ویسے ہی مر جاتا ہے چلو انہیں ایسے ہی مار دیا جائے کیا خوب حل نکالا غریبوں کی غربت مارنے کا.
کدھر گئے وہ ملک کے قانون کے رکھوالے؟ قانون کی بالادستی قائم رکھنے والے؟ یہاں تو اپنے ملک میں ہی عوام اپنے رکھوالوں کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہے، اپنے انصاف کے لیے کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں وہ منصف ہی مجرم بن گئے تو انصاف کہاں سے ملے گا؟ جہاں مسیحا بھی اپنی جان کی امان چاہتے ہیں وہ عوام کی جان کی پرواہ کیوں کریں گے؟ مطلب یوں سمجھ لیں یہاں سب دروازے بند ہیں، جائیں تو جائیں کہاں؟


یہ سنی باتیں نہیں ہیں، 11 دسمبر کی شام میں نے خود اس ہسپتال گئی اور وہاں موجود مریضوں نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈز اور نرسنگ سٹاف کے کمروں کا جائزہ لیا تو بڑے بڑے پتھر، بستروں پر پڑے شیشوں کے ٹکڑے اور زمین پر موجود خون کے نشانات کہانی بیان کرتے دکھائی دیے۔ کسی کا گزری شب میں بائی باس ہوا تو کوئی بسترِمرگ پر پڑا دکھائی دیا لیکن نہیں تھا تو وہاں کوئی بھی ایک ڈاکٹر۔ اور پھر چند گھنٹوں بعد ایک اور خبر بھی آ گئی کہ اس ہسپتال کو کچھ روز کیلئے بند کر دیا گیا، اب وہ مریض بیچارے کہاں جائیں گے؟ کیا ان سب مریضوں کی زندگیوں کی زمہ داری کسی نے اٹھائی؟ کسی اور ہسپتال میں ان کے علاج کا بندوبست کیا گیا؟ کیا ان کی جانوں کے ضیاع پر ان کو انصاف مل سکے گا؟ کوئی ہے جو ان سب سوالوں کے جواب دیے سکے؟


دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے