کالم

ٹرافی ہنٹر

دسمبر 12, 2019 8 min

ٹرافی ہنٹر

Reading Time: 8 minutes

پاکستان کے دل لاہور میں دل کے ہسپتال میں کالے کوٹ اور کالی ٹائی نے جو کیا اس سے عدلیہ کی جو تھوڑی بہت ناک بچ گئی تھی وہ بھی کٹ گئی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوچا تھا کہ جنرل مشرف کو غداری کے مقدمے میں سزا ہو گئی تو عدلیہ کی ناک بحال ہو جائے گی۔ چیف جسٹس پر ایک ذاتی اور تاریخی کفارہ ادا کرنے کا بھی بوجھ تھا، وہ اپنے معزز سسر چیف جسٹس نسیم حسن شاہ (جو ۱۹۷۹ میں بطور جج جنرل ضیا کے دباؤ میں وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینےوالے ججوں میں شامل تھے اور قبل از مرگ اس کا اعتراف کر چکے تھے) و دیگر ججوں کے ہاتھوں ایک وزیراعظم کے عدالتی قتل کے سیاسی و قانونی وارث بھی ہیں۔

عدلیہ بھی ایک خاندان ہوتا ہے اور شاید اس خاندان کی بھی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے ماضی قریب میں دو وزرائے اعظم کو اپنے ذوق شاعری اور ناول بینی کی نذر کردیا تھا۔ خلیل جبران کی انگریزی نظم
PITY THE NATION
(اس قوم پر افسوس)
اور ماریو پوزو کے انگریزی ناول
GOD FATHER
گاڈ فادر کی بالترتیب پیروڈی اور حوالوں کے ساتھ دو وزرائے اعظم (یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف) کو قتل تو نہ کیا مگر سیاسی طور پر زندہ لاش ضرور بنا دیا تھا- تاہم جسٹس کھوسہ اب دس دن قبل از ریٹائرمنٹ بظاہر تائب ہوتے دکھائی دے رہے تھے اور بطور کفارہ تاریخ جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے فیصلے کے بیتاب منتظر بھی جیسا کہ انکی ایک حالیہ تقریر سے واضح ہوا- اس تقریب میں انہوں نے جنرل مشرف کو نام تو نہ کیا مگر انکی نقل کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر مٹھیاں بھینچتے ہوئے ہوئے کہا “ایک اور طاقتور کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔” مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی بظاہر امیدوں پر پانی پھیر دیا اور خصوصی عدالت کو ۲۸ نومبر کو فیصلہ دینے سے روک دیا تھا- اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی حکومت اور غداری کا ملزم بھی ایک ہی صفحے پر تھے- دونوں اس فیصلے کے اعلان کو رکوانا چاہتے تھے- دونوں کے حق میں فیصلہ ہوا جسکے خلاف دونوں اپیل نہیں کریں گے۔

فیصلے کے منصف مصنف معزز جج اطہر من اللہ جو ۲۰۰۷ میں بطور وکیل اور معزول چیف جسٹس چودھری کے خود ساختہ ترجمان جنرل مشرف کی اسی غداری کے خلاف سڑکوں پر گو مشرف گو کے نعرے لگاتے جج بن گئے انہوں نے عین وقت پر وکلا تحریک کی کمر میں _ _ _ _ اور چھ سال کا ٹرائل مکمل کرنے والی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا- مگر مشرف کے وارث بھی کسی ایک فرد پر انحصار نہیں کرتے- پلان بی بھی شاید ضروری تھا- خصوصی عدالت میں چھ سال کے طویل ٹرائل کے بعد جنرل مشرف کے وکیل کی درخواست کو سماعت کے قابل قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بھی حیران کن طور پر جنرل مشرف کے کیس میں تحریک عدل و انصاف بن کر اٹھ کھڑی ہوئی- ادھر اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے جب جنرل مشرف کے وکلا اور تبدیل شدہ حکومتی استغاثہ کو حتمی دلائل کے لئیے ۱۷ دسمبر کو طلب کیا تو لاہور ہائیکورٹ نے بھی غداری کے مقدمے کی صحت پر سوال اٹھاتے ہوئے آئندہ سماعت ۱۷ دسمبر ہی رکھ دی-

اب صورت حال یہ ہے کہ فوج اور عمران خان کی حکومتیں جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے متعلق ایک ہی صفحے پر ہیں اور مقدمہ ختم کر کے ایک بستر مرگ پر پڑے اپنے آرمی چیف کی آخری رسومات مکمل اعزاز کے ساتھ ادا کرنا چاہتے ہیں- وفاقی کابینہ، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا میں ق لیگ ٹائپ عناصر کی موجودگی اور سیاست میں ن لیگ ٹائپ عناصر کی مجبوری کے باعث ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ ن لیگ مخالف شیر پر دھاڑ کر (یا “چھیڑ کر”) بھاگ جانے کو ہی اپنی بہادری اور جمہوریت کیلئیے قربانی کا حتمی ثبوت سمجھتی ہے-

آپریشن ریسکیو مشرف میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے- اور وہ رکاوٹ ہے وکلا برادری جس نے اپنی تحریک سے مشرف کے خلاف آئین سے سنگین غداری کے اسی مقدمے کی بنیاد فراہم کی۔ اگر تو یہ وکلا کسی سیاسی جماعت کے عام کارکن ہوتے تو کب کے قابو آ چکے ہوتے۔ مگر یہ وہ وکلا برادری ہے جس نے تین نومبر ۲۰۰۷ کے جنرل مشرف کے بطور آرمی چیف فرمان کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا- اس جرنیل کے وفادار چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، دیگر پی سی او ججوں، انگی ڈوگرا کورٹ اور اسکے فیصلوں کو بھی کوڑے دان کی نذر کیا۔ ایسے میں اگر خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو آئین سے سنگین غداری کا مجرم قرار دے دیا (سزا موت ہو یا عمر قید زیادہ اہم نہیں) تو یہ اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں میں موجود مہم جو عناصر کے مستقبل کے عزائم، انکی در پردہ سازشوں اور سیاسی انجینئیرنگ کے لئیے بہت بڑا صدمہ اور دھچکا ہو گا- اس فیصلے سے وکلا برادری، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور جمہوری قووتیں بھرپور طاقت کے ساتھ بحال ہونگی اور جنرل مشرف کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد کے لئیے مذکورہ قووتیں جس تحریک کا آغاز کرینگی وہ جنرل مشرف کے گدی نشینوں اور اسکی باقیات کے لئیے بھی بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

یہ مقدمہ اور اسکے فیصلے سے ہی جڑا ہے پاکستان اور اسکی جمہوریت کا مستقبل- چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جب جنرل مشرف کی طرح مکے لہرا کر اسکے آنے والے فیصلے کا ذکر کر رہے تھے تو شاید اسی لمحے اداروں نے اپنے عدالتی اثاثوں کو متحرک کرنے کے ایک پلان پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا- اب واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ۱۷ دسمبر کو استغاثہ کی نئی حکومتی ٹیم جنرل مشرف کے خلاف مقدمے میں یو ٹرن بھی لے سکتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہی سوال اٹھایا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لیا جا سکتا ہے- دوسرا سوال اٹھایا گیا کہ کس بنیاد پر مقدمہ بنایا گیا- معزز جج شاید بھول گئے کے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ میں سپریم کورٹ کے ۱۴ ججوں نے مشرف کے ہنگامی فرمان کو آئین سے سنگین غداری کے مترادف قرار دیا تھا-

۱۷ دسمبر کو غداری مقدمے کی خصوصی عدالت کے جسٹس وقار نے عدلیہ، قوم اور وکلا کے وقار کی بحالی کی خاطر ساتھی ججوں کے ہمراہ اگر مشرف کو مجرم قرار دینے کی کوشش بھی کی تو لاہور سے مشہور زمانہ “رانی توپ” کا براہ راست فائر آئے گا۔ ۱۷ دسمبر کو فیصلے کا امکان تو نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ کٹہرے میں مشرف نہیں اسکا ادارہ کھڑا ہے جو خود پر کسی قسم کی قدغن قبول نہیں کرتا۔ چاہے وہ سابق آرمی چیف پر غداری کے مقدمے کا فیصلہ ہو یا موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئین یا قانون کی عدالتی تشریح- چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ان دو بڑے عدالتی فیصلوں کے امکان نے طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کو بھی مخصوص انداز میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے- دشمن ملک بھارت کو دکھانے کے لئیے “ایٹمی صلاحیت” والے میزائل کا ٹیسٹ اور دشمن کے “ایجنٹوں” کے لئیے سات گھنٹے کی کور کمانڈر کانفرنس “عقل” والوں کے لئیے نشانیاں ہیں- اس پرچم کے سائے تلے صرف سویلین اور انکے ادارے ایک نہیں باقی سب اور انکی خوشیاں اور غم بھی ایک ہیں-

اعلی عدالتوں کے ججوں، سیاستدانوں اور صحافیوں کی طرح بیچارے وزیر اعظم عمران خان اور بے ضرر وزیر دفاع پرویز خٹک بھی صبح سے ٹی وی لگا کر بیٹھے تھے کے معلوم ہو انکے کور کمانڈروں نے سات گھنٹوں کی باہمی مشاورت و سماعت کے بعد انکے یا قوم کے بارے میں کیا فیصلے کئیے ہیں مگر پتہ چلا کہ سپریم کورٹ کی طرح انہوں نے بھی اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے- فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس ہی ملتوی ہو گئی۔ آئینی طور پر فوج کی کمانڈ اور اسکے کنٹرول کی ذمے دار ہماری حکومت اور اسکے وزیر اعظم کو اب شاید کبھی معلوم نہ ہو پائے گا کہ قومی سلامتی اور انکی حکومت کی سلامتی سے متعلق سات گھنٹے کی کانفرنس میں انکے اپنے کور کمانڈروں نے کیا اہم فیصلے کئیے ہیں۔قومی اور علاقائ سلامتی کی مخصوص صورت حال میں فوج کی اعلی ترین قیادت سات گھنٹے تک ایک ہی کمرے میں موجود کیا بحث کرتی رہی؟ کیا وزیر اعظم ایسا پوچھنے کی بھی ہمت کرینگے؟ اگر اس کانفرنس کے شرکا میں سے کسی نے ڈان لیکس ٹائپ کچھ ایسا کیا تو جاسوسوں کا انجام بھی سب کے سامنے ہے-

بار حال ترجمان کی پریس کانفرنس کے التوا کی وجہ شاید ایک واقعہ تھا جو شاید کور کمانڈر کانفرنس میں ممکنہ طور زیر بحث آنے والے معاملے سے جڑا ہو گا- ہو سکتا ہے یہ معاملہ مشرف غداری کیس کا ہو اور واقعہ یقیناً لاہور کے وکلا کی تازہ ترین وکلا گردی- جنرل مشرف کیس کو غیر منطقی انجام تک پہچانے کے لئیے جاری کوششوں کیلئیے یہ واقعہ ہونا بھی ضروری تھا اور اسکی میڈیا پر بھرپور تشہیر بھی لازمی تھی- فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کا التوا یقینی طور پر حکمت سے بھرپور فیصلہ تھا تاکہ جنرل مشرف کے خلاف تحریک چلانے والوں کی حرکتوں پر میڈیا پہلی بار “آزادی کے ساتھ” رپورٹنگ کر سکے- اس وکلا برادری نے بغیر بولی کے جو “آئین کا ٹھیکہ” اٹھایا ہے اس کو غداری کیس میں عدالتی فیصلے یا حکومت کے باقاعدہ یو ٹرن سے پہلے عوامی اور سیاسی سطح پر بے نقاب کرنا بھی ضروری تھا- تاکہ مشرف کے خلاف فیصلہ آنے یا اس کے حق میں حکومتی یو ٹرن کے خلاف یہ وکلا برادری پہلے والی عوامی حمایت نہ حاصل کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وکلا تحریک میں عزت کمانے کے بعد وکلا برادری کی لاہور میں وکلا گردی نے جنرل مشرف کی ۳ نومبر ۲۰۰۷ کی آئین سے غداری کے جرم کی تیرگی کو بھی شرما دیا – اس واقعے کے بعد جنرل مشرف کو ہیرو بنا کر اور وکلا تحریک کے سپاہیوں کو ولن بناُکر پیش کیا جائیگا- ایسا کرنے سے عدالتوں پر بھی مشرف کے خلاف فیصلہ دینے کا آئینی و اخلاقی دباؤ کم ہو گا- شاید کوئی یہی چاہتا تھا-

سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس کھوسہ اور جسٹس وقار سیٹھ وکلا کی اس حرکت کے بعد آئین کے مطابق مشکل اور تاریخی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟ تو پھر یہ واقعہ ایک قدرتی واقعہ تھا یا پھر ۰۰۰۰”؟
“پانچویں نسل کی جنگ” کی آڑ میں فلمیں بنا کر نوجوان نسل کو لوہے کی ٹوپیاں (کھوپے) پہنانے والے اب ایسے سکرپٹ اور حقیقی کردار میدان میں لا رہے ہیں کہ سب کچھ قدرتی طور پر ہوتا دکھائی دیتا ہے- سالہ ایک وکیل یا سالہ ایک ڈاکٹر اور سالہ ایک موبائل فوٹج بنانے والا سارے سسٹم کو ہیجڑا بنا دیتا ہے- پہلے ایک وکیل کو پھینٹی، اسکی ویڈیو وائرل تو پھر باقی سب کچھ قدرتی طور پر وکلا برادری، ڈاکٹر برادری اور اللہ کے حوالے، اور پھر اس سب کی ویڈیو وائرل جسکے بعد وکلا تحریک کی ایسی تیسی تاکہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے میں عدالتی فیصلے کو اللہ کی مرضی کے فیصلے تک روکنے کا کم از کم “اخلاقی جواز” دیا جائے- اور کسی عدالتی سزا یا فیصلے کی عدم موجودگی میں ادارہ مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئیے کسی اور وکلا تحریک کے خوف سے آزاد ہو جائے- جنرل مشرف کے خلاف جسٹس وقار فیصلہ سنا دیتے ہیں تو اس کو کوئی عدالت کتنی بار ہی معطل کیوں نہ کرے وہ ایک نئی وکلا اور جمہوریت بحالی تحریک کو جنم دے سکتا ہے- فیصلہ اگر سنا دیا گیا تو پھر اس کے دور رس نتائج ہونگے- اسی طرح آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا تفصیلی فیصلہ و وجوہات بھی آنی ہیں-

اب جب کے چیف جسٹس آئین کی بالا دستی کی گنگا میں اپنا پہلا اور آخری اشنان کر کے رخصت ہو جائیں گے تو انکو شاید پانامہ فیصلے کے گاڈ فادر یا سویز بنک کے خلیل جبران کے طور پر نہیں بلکہ مشرفی مکے والی تقریر یا جنرل باجوہ کے نوٹیفیکیشن معطلی کے حکم کے لئیے یاد رکھا جائیگا۔ یہی وہ ورثہ ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں نہ کہ وہ جو انکو ملا تھا- انکے ضمیر کا بوجھ تو شاید ہلکا ہو جائے مگر جو بوجھ اس قوم پر ان کے دور میں عدالتی فیصلوں سے پڑ چکا ہے شاید کئی نسلوں تک نہیں اترے گا-

کہا جاتا ہے کہ کسی خاندانی شکاری ٹرافی ہنٹر کے گھر کے ڈرائینگ روم میں شکار شدہ تین بارہ سنگھوں کے سر تو موجود تھے مگر اپنی زندگی کے آخری شکار پر وہ اب ایک بڈھے لاغر شیر کا سر ڈھونڈ رہا تھا۰ اس کو شاید امید دلائی گئی تھی کہ بوڑھے شیر کا سر الوداعی شیلڈ کے طور پر اسے پیش کیا جائیگا مگر جب اچانک نصرمن اللہ کی بجائے اطہر من اللہ ہو گیا اور ایک سید صاحب کا سر ایک نقوی صاحب نے تھام لیا تو ٹرافی ہنٹر نے غصے میں آ کر زندہ شیر کو ہی اپنے ڈرائینگ روم کی دیوار سے لٹکا دیا- اب سیاستدان دور دور سے اس شیر کو محفوظ فا صلے سے دیکھنے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں اسے کیوں لٹکایا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے