کالم

مُلازمت اور صحافت

مئی 6, 2021 8 min

مُلازمت اور صحافت

Reading Time: 8 minutes

گولی لگنے کے بعد ہسپتال کے آئی سی یو میں ٹی وی اور موبائل فون کے بغیر گزاری دو راتوں نے ذہن کے کُچھ دریچے کھولے۔ لوگوں کی بے پناہ محبتیں، دعائیں اور گُلدستے مُجھے مسلسل پہنچ رہے تھے، اللہ کے کرم سے اپنی جسم و جان کے بچ جانے پر مُجھ گناہگار کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ اپنی کامیابی صرف اس بات کو سمجھ رہا تھا کہ اپنی ماں کو اس حادثے کا پتہ نہیں چلنے دیا، لیکن ساتھ ساتھ کُچھ مضحکہ خیز باتیں بھی سُنیں تو فیصلہ کیا جب کچھ صحت بہتر ہوگی تو اپنے خیر خواہوں اور محبت کرنے والوں کے سامنے دل کھول کر رکھوں گا تا کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز ہو سکے اور لوگوں تک میرا پوائنٹ آف ویو بھی پہنچے جو کہ کئی ٹی وی چینل یا اخبار ذاتی تعصب یا کُچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر نہیں پہنچاتے۔ تو آج آپ سے کُچھ باتیں کروں گا۔
میں نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) جوائن کرنے کا فیصلہ حامد میر (اور خواجہ آصف)، کاشف عباسی، عمر چیمہ، مطیع اللہ جان اور محمد مالک (جو اُس وقت سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی تھے)، سمیت تقریباً ایک درجن صحافی دوستوں سے مشورے کے بعد کیا۔ جو لوگ کم علمی کی وجہ سے ہر وقت مجھے پیمرا سے ملنے والی تنخواہ کا ذکر کرتے ہیں، نہیں جانتے کہ پیمرا جوائن کرنے سے پہلے میری آمدن اتنی تھی کہ اُس ایک سال میں 78 لاکھ روپے صرف اِنکم ٹیکس کی مد میں ادا کیے تھے اور پیمرا آنے کے بعد اِنکم ٹیکس کی سالانہ ادائیگی کم ہو کر تقریباً 46 لاکھ روپے رہ گئی۔
پیمرا جوائن کرتے وقت اپنی تنخواہ پر کوئی بات چیت ہی نہیں کی اور صرف یہ کہا کہ جتنی تنخواہ محمد مالک کی ہے اتنی ہی مُجھے دے دیں، اس کے بعد میں اپنے کام میں لگ گیا اور کئی مہینوں تک نہ تنخواہ ملی اور نہ ہی کوئی ذکر ہوا۔ پہلی تنخواہ پیمرا جوائن کرنے کے سات یا آٹھ ماہ بعد ملی۔
الیکٹرانک میڈیا میں انسان اتنا آزاد اور خوشحال ہوتا ہے (لیکن آج کل ایسا نہیں ہے) کہ عُہدہ لینے کی خواہش کبھی تھی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی تو کہیں سفیر لگتا، بچوں کو باہر پڑھواتا اور ایک مطمئن اور پُر سکون زندگی گزارتا۔ یہ پیمرا والی استروں کی مالا گلے میں نہ ڈالتا لیکن صحافت سے مُحبت کی وجہ سے مقصد صرف یہ تھا کہ ٹی وی چینلز کو مروجہ صحافتی اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جینوئن صحافی پریشان تھے کہ میڈیا کی ساکھ مسلسل گرتی جا رہی تھی اور آزادی اور خوشحالی دونوں خطرے میں تھی۔ اور آج میڈیا کی آزادی اور حالات آپ کے سامنے ہیں۔
پیمراصرف ٹی وی چینلز اور کیبلز پر قانون کا نفاذ کرتا ہے لہٰذا میں نے رضاکارانہ طور پر اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ میں اب کبھی کسی ٹی وی چینل کی مُلازمت نہیں کروں گا حالانکہ آئین یا قانون میں اس کی ممانعت نہیں۔ میں نے چار سال بیروزگاری سہہ لی لیکن زُبان کا مان رکھا اور اس اصولی اور اخلاقی فیصلے پر قائم رہا، حالانکہ پیمرا سے نکلنے کے کُچھ ہی دنوں بعد ‘آج ٹی وی’ نے مُجھے دوبارہ اپنا پروگرام شروع کرنے کی آفر کی جو میں نے اپنے اصول کی وجہ سے قبول نہیں کی۔ اس بات کے گواہ آج ٹی وی کے CEO شہاب زبیری اور سینیئر اینکر عاصمہ شیرازی ہیں۔ میرا موقف تھا کہ لکھ تو سکتا ہوں، تجزیہ کاری بھی کر سکتا ہوں مگر ٹی وی چینل کی مُلازمت نہیں کروں گا، لیکن کیا پیمرا کی ملازمت کرنے کے فیصلے کے بعد میرے تمام انسانی حقوق معطل ہو گئے؟ کیا میرے زندہ رہنے، رزق حلال کمانے، اپنے نظریے پر قائم رہنے، اور لکھنے بولنے کے تمام بنیادی آئینی حقوق بھی ختم ہو گئے؟
آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت میرا حق ہے کہ میں جو پیشہ اختیار یا کاروبار کرنا چاہوں وہ کر سکتا ہوں۔ آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کو (صرف سیٹھ کے مُلازمین کو نہیں بلکہ ہر شہری کو) آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے، لہٰذا یہ میرا حق ہے کہ میں لکھوں، بولوں، ٹی وی چینل شروع کروں، موجود چینلز پر اپنی رائے کا اظہار کروں، اخبار نکالوں یا موجودہ اخبارات میں آرٹیکل لکھوں، ڈیجیٹل میڈیا یا فری لانس صحافت کروں، کاروبار کروں، وکالت کا لائسنس لوں، سیاست کروں یا یونیورسٹی کے بچوں کو صحافت پڑھاؤں۔
صحافت سیٹھ کی مُلازمت کا نام نہیں، صحافت سچ کی تلاش کا نام ہے۔ مرزا غالب نے جب کہا کہ ‘رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل، جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے’ تو وہ کسی شکست خوردہ مغل کماندار کی اردُل میں نہیں تھا۔ بابا بُلھے شاہ صاحب کا سچ جب بھانبڑ مچاتا تھا تو وہ کسی سمگلر کے نوکر نہیں تھے اور نہ ہی سعادت حسن منٹو نے کڑوا سچ لکھنے لیے اپنا ضمیر کسی پورن ویب سائٹس چلانے والی کمپنی کو گروی رکھوایا۔ اگر صحافت کا معنی کسی مشکوک آمدنی والے سیٹھ کی مُلازمت ہے تو طلعت حُسین، مطیع اللہ جان، رضوان رضی دادا، احمد نورانی اور بہت سے دوسرے بے بال اور ایماندار صحافی آج بے روزگار نہ ہوتے، حامد میر کو گولیاں نہ لگتیں، نہ عمر چیمہ کو اغوا کر کے اُس پر تشدد کیا جاتا اور نہ ہی سلیم شہزاد اور حیات اللہ قتل ہوتے۔
سچ کو پاکستانیوں تک پہنچانے کا فرض ٹی وی چینلز کی نوکری کے بغیر بھی جاری رہ سکتا ہے، رہے گا اور اس ڈیجیٹل دور میں دنیا بھر میں ایسا پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ صحافی سیاست سے حکومت میں جاتے ہیں، پھر واپس آتے ہیں اور کوئی اُن پر فتوی جاری نہیں کرتا جیسے یہاں نقلی اور جانب دارانہ اخلاقیات کے پردے میں جعلی دانشوروں نے صحافت کو سیٹھ کی نوکری سے لازم و ملزوم کر دیا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی طرح دنیا بھر میں میڈیا کو پروفیشن سمجھا جاتا ہے، مافیا نہیں کہ اگر آپ اس کا حصہ بن جائیں تو باہر نہیں نکل سکتے۔
برطانیہ کے وزیراعظم چرچل، فیض احمد فیض اور زیڈ اے سُلیری کی طرح فوج کی نوکری کے ساتھ صحافت بھی کرتے رہے۔ موجودہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سینیئر صحافی تھے، عارف نظامی دن کو وفاقی وزیر اطلاعات کے طور پر ریوڑیاں بانٹتے تھے اور شام ڈھلے پُرسکون لمحات میں نوائے وقت اور دی نیشن کی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والی پالیسی کا باریک بینی سے جائزہ لیتے تھے۔ انڈیا کے مایہ ناز صحافی کُلدیپ نائیر کا صحافت، سیاست اور سفارت کاری کا سفر مُسلسل جاری رہا۔
آپ قابل احترام نسیم زہرہ کی مثال لے لیں، لکھاری تھیں کبھی نیوز روم میں کام نہیں کیا، مشرف سرکار کے خرچے پر امریکہ میں ایک سال تک ریسرچ وغیرہ بھی کی، اسی دور میں پاکستان تحریک انصاف کے بانیوں میں نام بھی لکھوایا اور پارٹی کی پہلی سیکرٹری اطلاعات بھی بنیں، اور پھر سکون سے اینکر بن گئیں۔
اسی طرح ملیحہ لودھی اور شیریں مزاری کا صحافت سے سیاست پھر سفارت، پھر صحافت، پھر سیاست اور سفارت اور پھر صحافت اور پھر سیاست کا نہ ختم ہونے والا سفر آج بھی جاری ہے۔
میرے پیارے دوست محمد مالک، مشرف دور میں پی ٹی وی میں پدھارے، میڈیا میں واپسی ایسے ہوئی جیسے جہاز صاف موسم میں لینڈ کرتا ہے، نواز شریف آئے تو اُن کے ساتھ پھر پی ٹی وی میں، کنٹریکٹ ختم ہوا تو پھر میڈیا میں اور ساتھ ساتھ شہباز شریف کے مشیر کا بھی کام کرتے رہے، نواز شریف حکومت گئی تو دوبارہ دھڑلے سے میڈیا میڈیا کھیل رہے ہیں۔
ابھی درجنوں ایسے نام ہیں جو جگہ کی قلت کی وجہ سے لکھ نہیں پا رہا لیکن کیا آپ لوگوں نے ان سب کے بارے میں کُبھی بھی کُچھ منفی سُنا، کوئی طعنہ، تنخواہ کا ذکر، کبھی ان سب کو کہا گیا کہ آپ اب صحافی نہیں رہے؟
معید پیرزادہ، جن کودُنیا ٹی وی کے ذریعے اینکر بنانے کا ‘ثواب’ بھی مُجھے حاصل ہوا، پہلے ڈاکٹر بنے، پھر سول سرونٹ بن گئے، اور پھر جیو نیوز میں ریسرچر، پھر اینکر اور آج ‘صحافی’ ہیں، سالانہ کروڑوں کے بجٹ کی ‘نیوز’ ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
اسی طرح انواع و اقسام کے ریٹائرڈ جنرلز، کچے پکے تجزیہ کار اور ‘صحافی’ بن کر سیاست سمیت ہر معاملے پر روزانہ رائے زنی کرتے ہیں لیکن کوئی چُوں نہیں کرتا بلکہ چند میزبانوں کا ‘جنرل صاب، جنرل صاب’ کرتے مُنہ خُشک ہو جاتا ہے حالانکہ پینشن بھی لیتے ہیں اور ریٹائرڈ ہونے کے کئی دہایئوں بعد بھی اُن کا سابق ادارہ اور ساتھی اُنہیں اپنا بھی سمجھتے ہیں۔
بابر اعوان، فواد چوہدری اور عامر لیاقت ایک ہی وقت میں سیاستدان بھی ہیں، وکیل بھی اور پارلیمنٹ یا بار ایسوسی ایشن کے ممبرز بھی، مختلف اوقات میں ٹی وی پروگرام بھی کرتے رہے لیکن کسی نے نہیں پوچھا کہ بھائی تم صحافی ہو، وکیل یا سیاستدان بلکہ میڈیا کے کئی لوگ ان کی شان میں روزانہ قصیدے بیان کرتے ہیں۔
پھر یہ سب کُچھ میرے ہی خلاف کیوں؟ اس لیے کہ میری ساری صحافتی زندگی آئین کی عزت، جمہوری عمل کی مضبوطی، سویلین بالادستی، صحافیوں کی حفاظت، عزت، حقوق کی جنگ اور پُرامن، خوشحال پاکستان کی کو شش کرتے گزری۔ کسی کے کہنے پر سیاستدانوں کے حق میں یا اُن کے خلاف کوئی کیمپین نہیں چلائی، سیاست، عدلیہ اور میڈیا میں اسٹیبلشمنٹی مُداخلت پر تنقید کی، جنرل پرویز مشرف کے دور میں دباؤ کے باوجود خبر اور رائے تبدیل نہیں کی اور نہ اب کرتا ہوں۔
پیمرا میں دباؤ کے باوجود صرف وہی کام کیا جو آئین اور قانون کے مطابق تھا چاہے وہ احسان اللہ احسان کا انٹرویو رُکوانا ہو یا چند ٹی وی چینلز کو کیبل سے ہٹانے کی کوشش، شدید ترین دباؤ کے باوجود مُلک میں نفرت پھیلانے اور تشدد پر اُکسانے والے اینکرز اور ٹی وی چینلز پر قانون کا نفاذ کیا۔

یہ ہیں وہ ‘جرائم’ جن کی وجہ سے صرف میں ٹارگٹ ہوتا ہوں اور کچھ اینکرز جن کا دوسروں پر قانون نافذ کروانے کی جدوجہد میں سانس پُھول جاتا ہے، اُن کو پیمرا نے اس وقت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کبھی کبھار کوئی نوٹس بھیجا تو بجائے مہذب انسان کی طرح قانونی عمل کا سامنا کرنے کے، اپنے آپ کو قانون سے بالاتر بنا لیا۔ وہ میرے خلاف مہم میں پیش پیش ہیں۔ حالانکہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جرمانے اور بندشیں ‘جیو’ اور ‘آج’ کے حصے میں آئیں جہاں میں خود کام کر چکا تھا لیکن دونوں چینلز نے اپنے اوپر قانون کے نفاذ کو کھلے دل اور جمہوری رویے سے قبول کیا۔
دباؤ قبول کرنے سے انکار پر پیمرا کے دور میں مُجھ پر مُختلف شہروں میں نامعلوم لوگوں نے بغاوت کے الزام میں 27 فوجداری مقدمات درج کروائے گئے کیونکہ میں نہ دباؤ مانتا تھا نہ دھمکی۔
وہاں سے نکلوا کر بھی سکون نہ ملا تو پیمرا کی تنخواہ واپس لینے کے لیے مسلسل سر پٹختے رہے، جب وہاں دال نہ گلی تو میرے چھوٹے سے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے چند ٹویٹس کے الفاظ بھی ظالم نظام پر گراں گُزرے، پچھلے سال دینہ میں مُجھ پر غداری، بغاوت، سنگین غداری (جس کی سزا عمر قید ہے) اور آرٹیکل 6 کے مقدمے درج کروا دیے گئے جس کی سزا موت ہے۔
پچھلے مہینے ایف آئی اے میں سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات بنائے گئے۔ میں ان سب مقدمات کا سامنا کر رہا ہوں۔
اور اس رمضان المبارک میں واک کے دوران جب میں نصرت فتح علی کا ۔۔۔ ‘جان پہچان کیا دُشمنوں سے، دوستی کا بھروسہ نہیں ہے۔۔۔’ سُن رہا تھا تو مُجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
راستے میں ہسپتال لے جانے والے بچے میرا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے فون سے ویڈیو بناتے رہے تا کہ پولیس اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے۔ بعد میں اُنہوں نے وہ ویڈیو پبلک کر دی۔
کہا گیا خون نہیں نکلا، گولی جہاں سے داخل ہوتی وہاں زیادہ خون نکلتا ہے، سائیڈ سے داخل ہوئی وہاں کی خون آلود تصویریں پولیس نے بنائیں اور جاری کیں، گولی جگر کو زخمی کر کے پسلی توڑتے ہوئے سامنے سے نکل گئی اور پسلی ٹوٹنے سے خون نہیں نکلتا۔
ایک صاحب میر علی نے کہا کہ پسلی میں گولی لگے تو انسان اُٹھ ہی نہی سکتا، جی درست لیکن اگر رب چاہے تو انسان کھڑا رہ سکتا اور چل بھی سکتا اور سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔
اعتراضات کرنے والوں کا مُجھے پتہ نہیں لیکن میرا اپنے رب پر ایمان بہت مضبوط ہے، جو کُچھ بھی ہوا اُس کی رضا سے ہوا، میرے دل میں کسی کے خلاف کینہ نہیں، کُچھ لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے، آئینی بالادستی کے نظریے پر بھی قائم ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ ٹی وی چینلز کی ملازمت بھی نہیں کروں گا لیکن آئین کے آرٹیکل 18اور 19 میں دیے گئے حقوق کا استعمال میرا حق ہے اور وہ حق ہمیشہ استعمال کروں گا، مارنے اور بچانے والی ذات اللہ کی ہے اور مجھ گناہ گار کا رب صرف اللہ ہے، وہ جیسے رکھے میں ویسے خوش۔
نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں وچ کُفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں
نہ میں موسی، نہ فرعون
بُھلا کی جاناں میں کون

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے