کالم

کیا ‘حلف’ کی تبدیلی معمولی ہے؟

اکتوبر 4, 2017 6 min

کیا ‘حلف’ کی تبدیلی معمولی ہے؟

Reading Time: 6 minutes

کاغذات نامزدگی فارم سے لفظ”حلف” کب اور کس نے حذف کیا؟
جرم میں کون کون شریک؟ترمیم کب ہوئی؟ اب تک خاموشی کیوں رہی؟

تحریر: عبدالجبار ناصر

پارلیمانی اصلاحاتی کمیٹی

تحریک انصاف کے 2014 کے 120روزہ دھرنے اور پھر کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں انتخابی اصلاحاتی بل 2017 پر عملی کام 2014سے شروع کیا گیا اور اس کے لئے 34رکنی مشترکہ پارلیمانی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں قائم کی گئی۔جس کے دیگرارکان میں مسلم لیگ (ن) کے مرتضیٰ جاوید عباسی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری،زاہد حامد، عبدالقادربلوچ،انوشہ رحمان احمد خان، مشاہد اللہ خان،اور سلیم ضیا۔پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر،شازیہ مری،فاروق ایچ نائک،اعتزاز احسن اورسعید غنی۔تحریک انصاف کے شفقت محمود،ڈاکٹر عارف علوی،ڈاکٹر شیریں مزاری اورشبلی فراز۔ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستاراورطاہر حسین مشہدی۔جمعیت علما اسلام(ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری اورنسیمہ کشور خان۔جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ خان۔قومی وطن پارٹی (شیر پائو ) کے آفتاب احمد خان شیرپائو۔عوامی جمہوری اتحاد پارٹی کے عثمان خان ترکئی۔عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد۔مسلم لیگ(ضیا) کے اعجاز الحق۔مسلم لیگ(ف) کے غوث بخش مہر۔نیشنل پیپلزپارٹی کے غلام مرتضیٰ جتوئی۔پختونخواملی عوامی پارٹی کے عبدالقہر خان۔مسلم لیگ(ق) کے مشاہد حسین سید۔عوامی نیشنل پارٹی کے ستارہ ایاز۔ فاٹا سے ہدایت اللہ اور آزاد سید غازی گلاب جمال شامل تھے۔

سب کمیٹی اصلاحاتی کمیٹی
پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے ایک سب کمیٹی بنائی جس نے انتہائی محنت اور  کوشش کے بعد ایک ڈرافٹ تیار کیا۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران الیکشن کمیشن ،سول سوسائٹی، بار کونسلز اور عوام ، مختلف اداروں اور شخصیات کی رائے بھی لی گئی اورایک ابتدائی ڈرافٹ تیار کرکے مختلف اداروں سے اصلاح مانگی گئی ، پھرسیکڑوں صفحات پر مشتمل ڈرافٹ مرکزی پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کو سپرد کیاگیا۔
پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی حتمی ڈرافٹ
مرکزی پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے اس ڈرافٹ پر پھر کام شروع کیا اور129(غالباً دونوں کمیٹیوں کے اجلاس کی بات ہورہی) اجلاس کئے۔ اس طرح تقریباً تین سال کے عرصے میں ایک حتمی ڈرافٹ تیار کیاگیا۔
قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش اورپہلی منظوری!
پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے حتمی ڈارفٹ کی رپورٹ تیار کرکے 7اگست 2017کو یہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی۔ اس موقع پر چئیر مین سمیت مختلف ارکان نے اس کام کو سراہا، 7اگست سے 22اگست 2017تک یہ ڈرافٹ ارکان کے پاس رہا اور22اگست 2017کو یہ ڈرافٹ انتخابی اصلاحاتی بل 2017کی شکل میں قومی اسمبلی نے منظور کیااور بیشتر حصہ متفقہ طور پر منظور ہوا، چند ہی ترامیم پر کچھ ترامیم ضرور آئی مگرزیادہ ذور نہیں دیا گیا یا پھر مان لی گئی۔22اگست2017کوقومی اسمبلی میں منظور ہونے والے انتخابی بل 2017 کا لنک ذیل میں ہے۔
http://www.na.gov.pk/uploads/documents/1503574220_539.pdf
انتخابی بل 2017 سینیٹ میں پیش اور منظور!
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ انتخابی اصلاحاتی بل سینیٹ میں پیش کیاگیا، اطلاعات کے مطابق یہ بل سینیٹ کی مجلس قائمہ کے حوالہ کیاگیا جس نے جائزہ لیا اور پھر 22ستمبر2017 کو سینیٹ آف پاکستان نے کثرت رائے سے بل منظور کیا،جس پر ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوا،کیونکہ سینیٹ میں حکومت اقلیت میں ہونے کے باوجود بل منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی، جو اپوزیشن کی شکست تھی۔( اس بل کی سینیٹ سے منظوری سب کی ملی بھگت تھی یا نہیں یہ الگ کہانی ہے)
22ستمبر2017کوسینیٹ میں منظور ہونے والے انتخابی بل 2017 کا لنک ذیل میں ہے۔
http://www.senate.gov.pk/uploads/documents/1503589068_271.pdf
انتخابی بل 2017 دوبارہ منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں!
سینیٹ آف پاکستان سے انتخابی بل2017کی منظوری کے بعد یہ بل ایک بار پھر قومی اسمبلی پہنچا، اس کی وجہ یہ تھی کہ سینیٹ میں بعض ایسی ترامیم تھیں جو پہلے قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہوئی تھی۔قومی اسمبلی نے 2اکتوبر 2017 کو بل کی دوبارہ منظوری کثرت رائے سے تھی، اس دوران شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ۔
2اکتوبر2017کوسینیٹ میں منظور ہونے والے انتخابی بل 2017 کا لنک ذیل میں ہے۔
http://www.na.gov.pk/uploads/documents/1506961151_781.pdf
قومی اسمبلی سے حتمی منظوری کے بعد اب یہ بل صدر پاکستان کے دستخط سے پاکستان کا قانون بن چکا ہے اور عمل عدر آمد بھی شروع ہوچکا ہے۔
بل پر اعتراضات!
بل سینیٹ میں جانے کے بعد بظاہرایک ہی اعتراض آیاکہ شق نمبر 203 میں ترمیم کی اجازت دی جائے یعنی نا اہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکے،در اصل یہ شق سابق صدر پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو روکنے کے لئے ڈالی تھی، جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں بنانا پڑی اورنواز شریف نے مخدوم جاوید ہاشمی کو صدر بنایا، میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔دوسرا اعتراض 2اکتوبر 2017 کو بل کی حتمی منظوری کے وقت سامنے آیا کہ حکومت نے 2 اکتوبر کو بل کی منظوری کے دوران نامزدگی فارم سے ختم نبوت کے حوالے سے ’’حلف نامہ‘‘ کی عبارت ختم کیا اوراب قادیانیوں کو چھوٹ مل گئی ہے اور یہ بات ہر مسلمان کے لئے نہ صرف باعث تشویش تھی بلکہ غیض و غضب میں مبتلا کرنے والی بات تھی۔سوشل میڈیا اور بعض الیکٹرونک میڈیا میں بھرپور احتجاج ہوا، میری نظر میں ہر مسلمان نے اپنا ایمانی فریضہ اداکیا۔
نامزدگی فارم سے ختم نبوت کا حلف نامہ ختم؟
جس اندازمیں چیزیں سامنے آرہی تھیں اس سے یہ اندازہ ہواکہ مکمل عبارت ختم کی گئی ہے مگر سابقہ نامزدگی فارم اور موجودہ کی عبارات کو دیکھا گیا تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں تھی،جس پر ہم نے بھی اس کی تردید میں ایک پوسٹ کی اور بعض جگہ تبصرے کئے،مگر بل کو مکمل دیکھنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ بل کی عبارت تبدیل نہیں کی گئی ہے بلکہ فارم کے اقرار نامے کی سرخی میں لفظ ’’حلف‘‘ کو ختم کرکے صرف ’’اقرار نامہ‘‘ رکھا گیا (قومی اسمبلی کی پہلی منظوری بل اور سینیٹ کے بل میں صفحہ نمبر89 پر جبکہ قومی اسمبلی کی حتمی منظوری بل صفحہ نمبر79 پر اور سابقہ نامزدگی فارم اردو و انگریزی میں دیکھا جاسکتا ہے، فارم کے لنک ذیل میں ہیں ۔https://www.ecp.gov.pk/Documents/Downloads/Nomination%20Form-IB.pdf
https://www.ecp.gov.pk/Documents/Downloads/Urdu%201.pdf )۔
خوفناک تبدیلی
بظاہر یہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں مگر عملاً خوفناک ہے، کیونکہ میری دانست میں دانستہ یا غیر دانستہ در اصل ایک دروازہ کھولا گیا ہے، بعض احباب کے مطابق دیگر مقامات پر بھی بعض ترامیم ہیں مگر چونکہ میرے پاس سابقہ حتمی مسودہ نہیں ہے اس لئے اس پر بات کرنا مشکل ہے۔
تبدیلی کب ہوئی؟
ہم نے اوپر جو تفصیل بیان کی ہے اور جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق یہ ترمیم سب کمیٹی اور پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے ڈرافٹ میں موجود تھیں، جو قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور ہوئی مگر کسی کو نواز شریف کی نااہلی والی شق کے علاوہ کسی اور کی فکر ہی نہیں رہی، اگر سب کمیٹی نے غلطی کی تھی تو پارلیمانی کمیٹی کے پاس اصلاح کی گنجائش تھی اور اگر وہاں بھی غلطی ہوئی تھی تو قومی اسمبلی میں پہلی منظوری کے وقت یہ موقع تھا۔ وہاں بھی نہیں تو سینیٹ میں منظوری کے وقت یہ موقع تھا مگر کسی کو سیاست کے سوا کوئی فکر نہیں تھی۔
دو اکتوبر کو ترمیم ہوسکتی تھی؟
سادہ جواب یہی ہے کہ جی ہوسکتی تھی مگرایسا لگتا ہے کہ اس موقع پر ترمیم کی بجائے سیاسی مخالفین کو شکست دینا مقصود تھا، یعنی اگر یہ ترمیم ہوجاتی تو یہ بل ایک مرتبہ پھر سینیٹ کی جانب جاتا اور نوازشریف پارٹی کا صدر نہیں بن سکتے اور یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان معطل رہتا اور الیکشن کمیشن مزید کارروائی کرتا، ورنہ جو شیخ رشید احمد چیخ چیخ کر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو پکار رہے تھے وہ خود بھی کمیٹی میں شامل تھے، کسی ایک موقع پر اعتراض کیوں نہیں کیا اوراعتراض کے لئے آخری لمحے کا انتظار کیوں کیا؟ یہ سوال ترمیم پیش کرنے والے جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ اور امیر محترم سراج الحق سے بھی ہے کہ ان کو اس سے قبل اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟ اور انہوں نے اہم موقع پر سینیٹ کی بجائے ایک پارٹی اجلاس کا انتخاب کیوں کیا؟
مجرم کون؟
تفصیلی مطالعے کے بعد یہ محسوس ہوتا کہ دانستہ یا غیر دانستہ سب کمیٹی، پارلیمانی کمیٹی ، ارکان قومی اسمبی و ممبران سینیٹ سب مجرم ہیں۔
سب سے بڑے مجرم کون ؟
میری دانست میں سب سے بڑے مجرم جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی سراج الحق، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے علامہ ساجد میر، مسلم لیگ(ن)کے راجہ ظفر الحق، پیر امین الحسنات، آپا نثار فاطمہ کے فرزند چوہدری احسن اقبال، تحریک انصاف کے علی محمد خان اور دیگر مذہبی قائدین و ممبران ہیں، جن کی لاپرواہی سے یہ جرم سرزد ہوا ہے،کم سے کم مجھے یہاں دیگر سے شکایت نہیں ہے،جن میں سے بعض کو علم ہی نہیں اور بعض اسی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔
ازالہ اور توبہ!
اب اس دانستہ یا غیر دانستہ گناہ پر پوری پارلیمنٹ کو توبہ کرنے کے ساتھ ازالہ بھی کرنا ہوگا، اگر یہ ترمیم درست ہے تو دلیل سے قائل کرنا ہوگا بصورت دیگر فوری طور پر نیا بل لایا جائے اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش کیا جائے اور جو جو بھی مخالف ہوگا وہ سامنے آئے گا۔پارلیمانی اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ اسحاق ڈار کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔ یہ معاملہ ہمارے آقا کی ذات اقدس کی ناموس کا ہے۔
خصوصی درخواست!
تحریک انصاف کی قیادت، شیخ رشید احمد اور دیگر سے درخواست ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اہم ایشو کو سیاست سے الگ رکھیں، علماء و مذہبی قیادت بھی جلد بازی میں فتوے بازی کی بجائے لوگوں قائل کریں کہ یہ غلط ہوا ہے، آلہ کار نہ بنیں، 1985ء کی اسمبلی میں  مرحومہ آپا نثار فاطمہ کی کو شش اور شاہ تبلیغ الدین اور دیگر چند ارکان کی تقاریر سے پورے ایوان کا ذہن تبدیل ہوسکتا تھا تو آج ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ہے، الحمداللہ دونوں ایوانوں میں 430 کے قریب مسلمان ممبران ہیں۔
نوٹ: تحریر کے ساتھ قومی اسمبلی میں منظوری کے وقت فراہم کردہ اردو اقرار نامے کی نقل بھی منسلک ہے_

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے