کالم

ٹیڑھا مینار، کرپٹ نظام

جنوری 8, 2018 2 min

ٹیڑھا مینار، کرپٹ نظام

Reading Time: 2 minutes

فیصل حکیم

کہتے ہیں کسی وقت ایک شہر کے وسط میں بڑا مینار تھا جسے دور دور سے سیاح دیکھنے کےلئے اس شہر کا رخ کرتے_ یک دن وہاں سے ایک بڑھیا کا گزر ہوا جس نے مینار کو دیکھا تو کہنے لگی کہ مینار گرنے والا ہے، مینار ٹیڑھا ہو رہا ہے _ اب سیاح اس کی بات سنتے اور نکل جاتے ، کئی دن گزر گئے،  بڑھیا روزانہ دن کے وقت شور مچانا شروع کر دیتی، مینار گرنے والا ہے،  مینار ٹیڑھا ہے، لیکن سب اس بڑھیا کو غور سے دیکھتے اور گزر جاتے وہ سمجھتی کہ شاید سب اس کی بات کو غور سے سن رہے ہیں لیکن کسی کے پاس اس کا حل نہیں ،کچھ دن بعد نوجوانوں کا ایک گروہ ادھر آنکلا، اس نے بڑھیا کی بات سنی تو ان میں سے ایک نوجوان آگے بڑھا اور بڑھیا سے بولا،اماں جی بتائیے گا کہ مینار کو کتنا سیدھا کرنا ہے،  میں اس کو سہارا دے دیتا ہوں اس کے بعد اس نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے وہ بہت زور لگا رہا ہے اور بڑھیا سے پوچھتا اور کتنا سیدھا کرنا ہے،  بڑھیا بولتی تھوڑا سے پھر ایک دم کہا بس بس مینار سیدھا ہو گیا، نوجوان نے فوری طور پر ایک لاٹھی مینار کے ساتھ یوں لگا دی جیسے مینار کو سہارا دے دیا،بڑھیا خاموش ہو کر ایک طرف چل دی،نوجوان نے دوستوں نے بولا تم نے یہ کیا حرکت کی وہ بڑھیا تو شاید پاگل تھی اور تم اسکو صحیح ثابت کرنے پر لگے رہے،نوجوان نے جواب دیا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید بڑھیا یہاں سے واپس نہ جاتی اور کئی لوگوں کو روزانہ اسکی باتیں سننا پڑتی لیکن میری وجہ سے نہ صرف بڑھیا مطمئن ہو کر چل دی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ یہاں پر آنے والوں کو شور سے بھی نجات مل گئی۔کہنے کو یہ ایک کہانی ہے لیکن موجودہ ملکی حا لات کچھ اس کہانی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں،جہاں پر ہر سیاستدان سمیت اعلیٰ شخصیات اپنے علاوہ ہر کسی کو ٹیڑھا سمجھتی ہیں کرپٹ سمجھتی ہیں،پاکستان کی سیاست اور پاکستان کا نظام صرف کرپشن الزامات کے علاوہ کچھ نہیں رہا،اپوزیشن میں رہنے والوں کو حکومت کرپٹ نظر آتی ہے تو حکومت کو انصاف نظر نہیں آرہا،انصاف دینے والے اپنی مرضی کی وضاحتیں اور ریمارکس دیتے ہیں تو عوام ان سب کو حیرت سے دیکھتی ہے کہ کیا کریں کس پر اعتبار کریں،پچھلے ڈیڑھ سے دو سال کے دوران ہمارا پورا نظام اور سیاست اسی بڑھیا کی طرح ہے جس کو ہر مینار ٹیڑھا نظر آرہا ہے بس اس کو ضرورت ہے ایک ایسے عقلمند کی جو اس شور کر ختم کر سکے،جو حقیقی مینڈیٹ کا احترام بھی کر سکے اور اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرنے کا حق بھی لے سکے!

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے