کالم

عدالت میں کس صحافی نے کیا کہا

جنوری 29, 2018 6 min

عدالت میں کس صحافی نے کیا کہا

Reading Time: 6 minutes

گزشتہ سے پیوستہ (دوسری اور آخری قسط)
لاہور کی سپریم کورٹ رجسٹری میں ڈاکٹر شاہد مسعود کی ’تہلکہ خیز‘ اسٹوری پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عاصمہ شیرازی تین رکنی بنچ کے سامنے پیش ہوئیں۔ عاصمہ شیرازی نے اتنی روانی  سے گفتگو کی کہ ایک لمحے میں غور سے دیکھنے پر مجبور ہواکہ کہیں لکھا ہواتو نہیں پڑھ رہیں، مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے کہ انہوں نے بغیر کسی ریہرسل کے اتنے خوبصورت جملے بغیر اٹکے بولے۔ شاید حیرت زدہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری گفتگو نہ لکھ سکا۔ عاصمہ شیرازی نے کہاکہ لفظ کی حرمت کیاہے، ہمیں اگر اس کا پتہ چلے کہ جوہم کہہ رہے ہیں اس کی حیثیت کیاہے۔وقت کے ساتھ صحافت کا جنارہ نکل گیاہے اور ایک شعر میں ترمیم کرکے کہاکہ ’ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘۔ عاصمہ شیرازی نے کہاکہ پہلی بار جب ڈاکٹر شاہد کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں دیکھا تو لوگ ان کے ہاتھ چوم رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ میں ایک ماں ہوں، اور اس طرح کی نفسیاتی دہشت گردی سے اس ملک میں بچوں پر جو اثرات مرتب ہورہے ہیں،ہم لوگ اپنوں کے بارے میں ہی محتاط ہورہے ہیں، کس پر اعتبار کریں۔
عاصمہ شیرازی نے کہاکہ ملک ریاض نے ماضی میں سوشل میڈیا کے ذریعے میڈیا اینکرز پر الزامات لگائے تو ہم پانچ لوگ سپریم کورٹ گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ایشو الگ رکھیں، میڈیا ریفارمز کو الگ سے زیربحث لائیںگے۔زینب قتل اور اس خبر کے اثرات کی بات کریں۔ عاصمہ شیرازی نے کہاکہ بہت افراتفری پھیلی ہے، جزا سزا ہونی چاہیے،
اسی دوران ڈاکٹر شاہد اپنی نشست سے اٹھ کر عدالتی کارروائی میں مخل ہوئے اور بولنا شروع کیا، کہاکہ میری چار دن سے تذلیل کی جارہی ہے اور اب یہاں بھی تذلیل ہورہی ہے۔
اینکر کاشف عباسی نے عدالتی روسٹرم پر آکر کہاکہ یہ ریٹنگ کا مسئلہ ہے، جب تک ہم  سنسنی نہیں پھیلائیں گے ریٹنگ نہیں آئے گی، اس مسئلے کہ حل کیے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، ہم رات کو بیٹھ کر لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، کہاں ہے ہتک عزت کا قانون؟ ۔ صحافی کی سزا صرف اس کی خبر غلط ہونا ہی ہوتاہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ کرکے سزا نہ دیں؟ کاشف عباسی نے کہاکہ یہ مقصد نہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تو کسی کے پیچھے نہیں گئے، خود کہاکہ خداکیلئے چیف جسٹس صاحب، میری خبر ہے ایکشن لیں، پکڑیں، آج تک کسی کو نہیں پتہ کہ وہ دونام کون ہیں۔ہم ایکشن لیں گے تو پھر کوئی اور شاہد مسعود ٹی وی پر آکر ایسی بات نہیں کرے گا، جب ایک خود ہمارے پاس آگیا ہے تو کارروائی کیوں نہ کریں، اس سے زیادہ بڑی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک شخص خود کہے کہ میری خبر ہے اس پر نوٹس لیں۔اب قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ کاشف عباسی نے کہاکہ جی بالکل سزا جزا ہونی چاہیے۔
اس کے بعد ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام کے اینکر آفتاب اقبال آئے۔ انہوں نے عدالتی روسٹرم پر وہی انداز اختیار کیا جو اپنے پروگرام میں اسٹیج اداکاروں سے کرتے ہیں۔لیکچر دیتے ہوئے بولے کہ آج بہت اچھا موقع ہے، میڈیا کے سینکڑوں لوگ جمع ہیں، میری بہت خواہش ہے کہ ان موضوعات پر ایک شو کروں اور اس میں صحافیوں اور معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ ریٹائرڈ ججوں کو بھی مہمان کے طور پر بلاﺅں۔ چیف جسٹس نے برجستہ کہاکہ اس کیلئے میرے ریٹائرڈ ہونے کا انتظار کریں پھر آپ کے پروگرام میں آﺅں گا۔ آفتا ب اقبال نے ڈاکٹرشاہد کی اس انداز سے تعریف کی کہ جیسے لطیف طنز کررہے ہوں۔انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر شاہد کی شخصیت میں عجیب سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اور اب ان اچانک آنے والی تبدیلیوں کی قیمت چکانے کا وقت آگیاہے۔ یہ غلطی بلنڈر بن گئی ہے، ڈاکٹر شاہد نے یوٹرن لیاہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگیوں میں یوٹرن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ہم بہت سی چیزوں پر نوٹس لیتے ہیں اور اس کا فائدہ ہوتاہے، معاشرے میں کسی ایسی چیز کو برداشت نہیں کریںگے، کراچی میں سماعت کے دوران معلوم ہواکہ ایک شخص نے راﺅ انوار کے سر کی قیمت مقررکی ہے تو فورا نوٹس لیا اور گرفتار کرنے کی ہدایت کی۔ رات بارہ بجے مجھے بتایا گیاکہ مذکورہ شخص کو حراست میں لے لیا گیاہے۔ ( اسی دوران پچھلی نشست سے آواز آئی کہ جن کے پیچھے طاقتور لوگ ہوتے ہیں ان کو راﺅ انوار کی طرح دہشت گردی کے باوجود ریاست عدالتی حکم پر گرفتار نہیں کرسکتی)۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم قانون سازوں کا احترام کرتے ہیں، وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
جنگ گروپ کے صحافی سہیل وڑائچ نے موقف اختیار کیاکہ صر ف یہ کہناہے کہ کسی ایک جھوٹ کی بنیاد پر سارا سچ داغدار نہ کردیاجائے، یہ معاشرہ سچ کی بنیادپر قائم ہے۔اس کیس میں کارروائی سے میڈیا کی آزادی کو خطرہ نہیں ہونا چاہیے، قانون کے مطابق سزادینے سے قبل وارننگ دیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خبر دینے والا معافی مانگنے پر راضی نہیں۔ سہیل وڑائچ نے کہاکہ ہم نے نجی طور پر ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی ہے کہ معافی مانگ لیں۔ (سہیل وڑائئچ نے یہ بات اپنے مخصوص انداز میں کہی تو عدالت زعفران زار بن گئی)۔
اسی دوران میرے ساتھ والی نشست پربیٹھے اسد کھرل( بول ٹی وی کے چیف نیوز انالسٹ) جو کافی دیر سے پہلو بدل رہے تھے، اچانک اٹھ کر کہنے لگے کہ میں بھی ذرا کچھ کہہ لوں اگر موقع ملتاہے۔ میں نے کہاکہ کھرل صاحب، وہ 162 اکاﺅنٹس کی تفصیلات ساتھ ضرور لے کرجائیے۔عاصمہ شیرازی جو ساتھ ہی بیٹھی تھیں، مسکرائیں اور مجھ سے پوچھاکہ آپ وہ’احساس‘ لکھنے والے اے وحید مراد ہیں، میرے مثبت جوا ب پر کہنے لگیں کہ’ ویری گڈ‘زبردست لکھتے ہیں‘۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔
چیف جسٹس نے اچانک جمہوریت کے بار ے میں بات کرنا شروع کی، بولے کہ جمہوریت ہے تو میں ہوں، میری وجہ سے جمہوریت ہے،جمہوریت نہیں ہوگی تو میں بھی نہیں رہنا چاہوں گا۔ (اس طرح اچانک جمہوریت کے بارے میں بولنے کی مجھے کوئی سمجھ نہ آئی کہ سیاق وسباق کیاہے)۔
صحافی مظہرعباس نے عدالت کو بتایاکہ ہم نے صحافت کے بنیادی اصول پڑھے تھے۔ جب نائن الیون ہوا تو اے ایف پی میں تھا، لشکر طیبہ کی فیکس آئی کہ ہم نے حملہ کیا ہے، بڑی خبر تھی تصدیق میں پڑگیا۔بیورو چیف نے کہاکہ تم نہیں دیتے تو میں چلادیتاہوں،کچھ دیر بعد اے ایف پی کے حوالے سے وہ خبر بی بی سی اور سی این این پر تھی۔ کچھ ہی دیر میں باﺅنس ہوگئی جب لشکر طیبہ کے عہدیداروں نے کہاکہ ہم سے منسوب یہ دعوی جعلی ہے۔ ججوں کو ہٹائے جانے کی خبر کے ساتھ بھی یہی ہواتھا۔ ڈان اخبار نے میر مرتضی کے حوالے سے ایک خبر دی تھی اس پر بھی تہلکہ مچاتھا۔خبر دینے والے کے ساتھ چینل کی بھی ذمہ داری ہے،کیا چینل کا ایڈیٹوریل بورڈ ہے؟کیا کسی نے چیک کیا؟۔ کسی بھی خبر کی تردید اس سے حاصل ہونے والی شرمندگی ہی ہوتی ہے۔ یہاں ڈاکٹر شاہد سے قبل چینل کے مالک کو آنا چاہیے تھا۔ان کو ذمہ داری لینا چاہیے۔ میں اپنی طالب علمی کے دور سے ڈاکٹر شاہد کو جانتاہوں، جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ درست ہے، اگر خبر درست ہوئی تو پورے میڈیا اورصحافی برادری کیلئے اعزاز ہوگا، ڈاکٹرشاہدثبوت لائیں اور اگر نہیں ہے تو چینل پر ذمہ داری عائد کی جائے۔
صحافی سلیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ یہ پورے شعبے (پروفیشن) کی عزت کا سوال ہے، سینتالیس سالہ کیریرمیں یہ پہلا موقع ہے کہ خبر پر اس طرح عدالت لگی۔ پوری دنیا میں اس خبر کا اثر گیاہے۔ لیکن عدالت معاف کرنے کا اختیار ر کھتی ہے، عادی قانون توڑنے والے کو سزاملنی چاہیے، اگر ایک غلطی ہوتو معاف کیاجائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قانون توڑنے والا عادی نہ ہوتو کیا اس کی سزا معاف کی جاسکتی ہے؟۔اس معاملے میں کوئی معافی شافی نہیںہوگی، پتہ نہیں کیا کریںگے، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ سب اپنے ساتھی کیلئے دعا گوہیں۔ سلیم بخاری نے کہاکہ ان کو موقع دیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو معافی مانگنے کیلئے کہنا جج یا قاضی کا کام نہیں، ہم یہ نہیں کہیں گے کہ معافی مانگیں، اور نہ ہی یہ کہیں گے کہ معافی نہ مانگی تو یہ ہوجائے گا۔ سلیم بخاری نے کہاکہ صحافیوںکی آئندہ نسل کیلئے اس عدالتی کارروائی میں بہت بڑا سبق ہے۔
ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر اور ٹریبیون اخبار کے ایڈیٹر فہدحسین نے عدالت کو بتایاکہ اس معاملے کے تین پہلو ہیں، ایک بنک اکاﺅنٹس جو غلط ثابت ہوگئے، عالمی گروہ اور وفاقی وزیر کے ملوث ہونے کے الزام کی جے آئی ٹی نے تحقیق کرناہے۔ فہدحسین نے کہاکہ جب کسی ایک نے دیکھا کہ کسی کارروائی کا کبھی نتیجہ نہیں نکلتا تو دوسروں نے دیکھا دیکھی وہی کام شروع کردیا۔اگر جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں کوئی چیز سامنے آتی ہے تو معلوم ہوگا، سپریم کورٹ سے پہلی بار اس طرح کے معاملے کو لیا گیاہے، میڈیا ریفارمز کیلئے کچھ کرناہے تو آج کا دن اس کا نکتہ آغاز ہونا چاہیے۔ صرف اس ایک مخصوص کیس پر محدود نہ رہا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ فی الوقت اس کیس میں اس ایک ایشو تک محدود ہیں، میڈیا کمیشن کیس میں تمام دیگر امور کو بھی دیکھیں گے۔ فہد حسین نے کہاکہ جے آئی ٹی میں ساکھ والے لوگ ہوں تو نتائج بہتر ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک افسر ڈھونڈ لیا ہے، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اس کی سربراہی کریں گے، باقی دولوگ بھی ساکھ والے ہوں گے۔
جاری ہے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے