کالم

دھاندلی لاعلاج لیکن بچاؤ ممکن

جون 9, 2018 4 min

دھاندلی لاعلاج لیکن بچاؤ ممکن

Reading Time: 4 minutes

میاں کاشان

مادر وطن میں ایک بار پھر انتخابات کا دور دورہ ہے تو ہم نے بھی سوچا کہ ہم بھی خود کو عقل کل ثابت کرنے کیلیے اپنا فلسفہ بھگاریں ۔ شاید کہ کسی کی نظر سے گزرے اور اس پہ کسی حد تک عمل ہوسکے۔ انتخابات جب بھی منعقد ہوتے ہیں تو اس سے پہلے صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے مطالبات سامنے آتے ہیں اور بعد میں عموما جیتنے والی پارٹی سمیت تمام فریقین ہی کسی نہ کسی حد تک دھاندلی کا شور بھی مچاتے ہیں ۔

آج ہم کسی حد تک جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دھاندلی کیسے کیسے ہوتی ہے؟ کرواتا کون ہے اس پہ بات کرونگا تو پر جلنے کا خدشہ ہے ۔
بنیادی طور پر دورانیے کے اعتبار سے تین اقسام کی دھاندلی کا وجود پاکستان میں دریافت ہوا ہے۔ پہلی قسم قبل از انتخابات دھاندلی ( پری پول رگنگ) ، دوسری قسم انتخابات کے روز ہونیوالی دھاندلی اور تیسری بعداز انتخابات دھاندلی۔ قبل از انتخابات دھاندلی میں حلقہ بندیوں میں تبدیلی کروانا، من پسند ریٹرننگ افسران ، پریزائیڈنگ افسران، پولیس افسران اور دیگر انتظامی عہدیداران کی تبدیلی وتقرری،ووٹر فہرستوں میں جعلی ووٹوں کا اندراج، پولنگ اسکیم میں تبدیلی ( وارڈز اور بلاکوں میں تبدیلی وغیرہ)، من پسند نگران سیٹ اپ لانا ( خواہ دعویٰ یہی ہو کہ نگران سیٹ اپ کے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا ) مخالفین کیلیے انتخاب لڑنے کے مساوی مواقع کو محدود کرنا (اس حوالے سے گزشتہ انتخابات میں پی پی پی اور اے این پی کی مثال اور موجودہ انتخابات میں ایم کیو ایمم اور ن لیگ کی مثال ) کسی بھی جماعت کی جانب سے خوامخواہ نادیدہ قوتوں کا بذعم خویش ترجمان بننا تاکہ عوام میں تاثر جائے کہ اس جماعت کو ان نادیدہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے (اور عموما ایسا ہوتا بھی ہے)، قانون اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کسی بھی جماعت یا فرد کے خلاف شد ومد سے حرکت میں آجانا، 2008 ، 2013 اور اب 2018 انتخابات میں بجلی یا گیس وغیرہ کو بطور ٹول استعمال کرنا۰ (2008 کے انتخبات سے قبل بھی یک لخت ملک میں شدید ترین لوڈ شیڈنگ کا آغاز ، 2013 میں بھی الیکشن سے پہلے عوام کو شدید ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا اور 2018 انتخابات سے قبل بھی ن لیگ کے وافر بجلی کے دعووں کے باوجود ملک میں شدید ترین لوڈ شیڈنگ کا ہونا) وغیرہ کو قبل از انتخابات دھندلی کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے آپ اس سے اختلاف اور تصحیح دلیل اور مثال کے ذریعے کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

اب باری آتی ہے انتخابات کے روز دھاندلی کی جس کا ویسے تو اصل آغاز پولنگ ڈے سے تقریبا ایک ہفتہ قبل ہوتا ہے اور اختتام غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے پہ ہوتا ہے ۔ دھاندلی کی اس قسم میں انفرادی اور اجتماعی سطح پہ ووٹوں کی خریداری، جعلی ووٹ ڈالنا ( جعلی شناختی کارڈ پہ ووٹ دالنے یا کسی دوسری کی جگہ ووٹ ڈالنا وغیرہ)، پولنگ عملے کے ذریعے یا دھونس دھاندلی ، بدممعاشی و جبرسے بیلٹ پیپرز پہ ٹھپے لگانا (عموما کراچی ، اندرون سندھ بلوچستان سمیت تقریبا پورے ملک ہی میں اس کی مثالیں کسی نہ کسی اندازز میں ملتی ہی ہیں)۔ جھگڑے یا کسی بھی بہانے پولنگ کے عمل کو معطل یا تاخیر کروانا، ووٹوں کی گنتی کے وقت ہیرا پھیری اور بد قسمتی اور شرمندی کی بات ہے کہ روٹی مطلب لنگر عام کو بھی بطور ٹول استعمال کیا جاتا ہے ۔
تیسری قسم ہے بعد از انتخابات دھاندلی، میری اس رائے کا بہت سے لوگ تمسخر اڑائیں گے لیکن اس کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ دھاندلی کی اس قسم میں دوبارہ گنتی، پولنگ اسکیم میں رکھے گئے بوگس پولنگ اسٹیشنز کا رزلٹ شامل یا کمپیوٹر کی غلطی قرار دے کر کسی رزلٹ کو شامل نہ کرنا، دوبارہ گنتی کی صورت میں، تھیلوں سے اضافی بیلٹ پیپرز کا نکلنا، بیلٹ بکس کا غائب پایا جانا وغیرہ شامل ہیں ۔ ویسے تو دھاندلی کی تینوں اقسام میں اہم لوگ کسی نہ کسی طرح کردار ادا کرتے ہیں لیکن بعد از انتخابات دھاندلی خصوصی طور پر انکی مدد کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ انتخابات کے بعد انتخابی مواد جہاں محفوظ کیا جاتا ہے وہاں عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔۔

اگر دھاندلی اتنے بڑے پیمانے پر ہورہی ہے تو اس سے نمٹا کیسے جائے تو جناب جیسے ایڈز لا علاج ہے لیکن چند احتیاطی تدابیر سے بچاؤ ممکن ہے بالکل ویسے ہی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر بھی کسی حد تک چوکنے رہ کر اس کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ امیدوار اور ووٹرز کو نئی حلقہ بندیوں، اپنے ووٹ کے اندراج، انتخابی بلاک اور پولنگ اسٹیشن سے متعلق معلومات حاصل ہونی چاہییں۔ فوت ہوجانے والوں کے ووٹ کا اخراج بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ امیدوار اپنے حلقے کی پولنگ اسکیم کا خصوصی جائزہ لیں مطلب حلقے میں موجود پولنگ اسٹیشنز ، بوتھ کی اصلی تعداد سے باخبر رہیں اور پولنگ کے دن ان ورکرز کو بطور پولنگ ایجنٹ تعینات کریں جو متعلقہ علاقے کے افراد سے بخوبی آشنا ہوں کیونکہ جعلی ووٹوں کے ڈالے کی روک تھام ایک باخبر اور چوکنا پولنگ ایجنٹ ہی کر سکتا ہے۔  ہر پولنگ ایجنٹ انتخابی عملے پہ خصوصی نگاہ رکھے اور خصوصا پولنگ کا عمل کسی بھی غیر ضروری وجہ سے رکنے کی صورت میں ہوشیار رہے۔ غیر حتمی نتیجہ لیے بغیر پولنگ اسٹیشن کو نہ چھوڑے۔ انتخابی سامان کو اپنے سامنے سیل کروائے اور سیل کو خصوصی طور پر ہر ممکنہ طریقے سے چیک ضرور کر لے۔ جبری طور پہ ٹھپے لگانے پہ ہر ممکن مزاحمت کرے یا اپنے امیدوار کو مطلع کرے۔ امیدواران ریٹرننگ افسر کے دفاتر میں بھی اپنے نمائدیے کو موجود رکھیں ، اپنے پولنگ ایجنٹ سے ملنے والے نتیجے اور ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچنے والے نتیجے کی انٹری کو یقینی طور پر تصدیق کروائے۔ جیت کی صورت میں بھی انتخابی سامان کو مکمل طور پر محفوظ بنائے جانے تک نگرانی یقینی بنائے۔ جعلی ووٹ ڈالنے کی حوصلہ شکنی اور ووٹ کی پرچی ووٹر کی جانب سے بیلٹ باکس ڈالے جانے کے وقت خصوصی نوٹ کرے کہ وہ ایک ہی پرچی ڈال رہا ہے کیونکہ خریدے گئے ووٹ باہر لائے جاتے ہیں اور بعد میں کسی دوسرے ووٹر کے ذریعے اندر بجوخا کر باکس مین ڈلوائے جاتے ہیں۔ قانون اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے کسی فرد یا جماعت کے خلاف بے جا حرکت میں آنے کی صورت میں وہ امیدوار یا جماعت اپنے ووٹرز میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کرے۔ صاف اور شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کیلیے میڈیا اور غیر جانبدار مبصرین کو زیادہ سے زیادہ رسائی یقینی بنائی جائے۔ ویسے تو پولنگ اسٹیشن میں موبائل فون لے جانے پر پابندی ہوگی لیکن ہماری عوام کافی تیز ہے اس کے استعمال کو مثبت بنا کر بھی دھاندلی سے بچاؤ ممکن ہے۔ امید ہے چند ایک احتیاطی تدابیر سے دھاندلی کے امکانات کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ دھاندلی لاعلاج ہے لیکن اس سے کسی حد تک بچاؤ ممکن ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے