کالم

دو سماعتوں کا احوال

اگست 14, 2018 4 min

دو سماعتوں کا احوال

Reading Time: 4 minutes

فیاض محمود

شادی کی چھٹیوں پر تھا۔ معلوم ہوا العزیزیہ ریفرنس کی اہم سماعت ہے اور بطور صحافی اہم سماعت سے دور رہنا اپنے ساتھ زیادتی ہے۔ بس یہ سوچ کر رخت سفر باندھا اور واپس شہر اقتدار آن پہنچا۔ پیر کی صبح اٹھا کہ کہیں تاخیر نہ ہوجائے یہ سوچ کر بھاگم بھاگ احتساب عدالت جا پہنچا۔ کسے خبر تھی جو میں سوچ رہا اس سے کہیں مختلف اسلام آباد انتظامیہ سوچ رہی تھی۔ جوڈیشل کمپلیکس وہ جگہ جہاں تقریبا 9 ماہ سے زائد عرصہ گزرا۔جہاں رات دس بجے تک ریفرنسز کی سماعت کے لیے موجود رہے۔ جسے کبھی کسی صحافی سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ آج اس جوڈیشل کمپلیکس کے لیے مجھ سمیت سب صحافی دوست خطرہ بن چکے تھے۔ خار دار تاروں میں جکڑا جوڈیشل کمپلیس اور اطراف میں کھڑے پولیس اہلکار نیا منظر نہیں تھا۔ بس اتنا ضرور بدلا کہ ہم پر جوڈیشل کمپلیکس کے دروازے بند کیے جاچکے تھے۔ صحافی کا کام خبر دینا ہوتا ہے یہی سوچ کرمیڈیا کہ داخلے پر پابندی کی خبریں چلائیں مگر دوا نے کام نہ کیا۔ پولیس سے جواب ملا اسلام آباد انتظامیہ کے بڑے افسر حمزہ شفقات اس پابندی کی وجہ ہیں۔ مطالبہ کیا گیا ان سے ہماری ملاقات کرا دی جائے مگر بتایا گیا کہ وہ ملنے سے انکاری ہیں۔ پرویز رشید اور چند دیگر لیگی رہنما وہاں پہنچے اور وہ بھی ہماری صف میں آن کھڑے ہوئے۔

تھوڑی دیر گزری تو صحافیوں کا صبر جواب دینے لگا نعرے بازی شروع ہوئی۔ آزاد میڈیا کے نعرے گونجے۔ علامتی دھرنا دیا گیا۔ ابھی علامتی احتجاجی واک کا منصوبہ چل رہا تھا کہ گولی چلنے کی آواز گونجی۔ صحافی احتجاج بھول گئے۔ یہ بھی یاد نہ رہا کہ اللہ نے جان بچا لی ہے۔ وہاں بھی فرائض نبھانے لیے ٹکرز لکھوانے میں مصروف ہوگئے۔ تھوڑی تحقیق کے بعد معلوم ہوا وہ گولی غلطی سے پولیس اہلکار کی بندوق سے نکلی۔ پیٹی بھائی کو بچانے لیے پولیس حرکت میں آئی۔ پہلے بندوق غائب کی پھر اس اہلکار کوبھی چپکے سے رفوچکر کردیا۔ باہر ہنگامہ برپا تھا۔ وقفے وقفے سے انتظامیہ مخالف نعرے گونجتے۔ کچھ ہی لمحوں میں آوازیں خاموش ہوجاتیں اور نظریں احتساب عدالت کی درودیوار پر لگ جاتیں۔ جہاں تین بار کا وزیراعظم بکتر بند گاڑی میں بطور ملزم پیش کیا ہوا تھا۔ سماعت ختم ہوئی ہمیں عدالتی کارروائی سے متعلق بتایا گیا۔ جسے ہم نے تصدیق کے بعد رپورٹ کردیا۔ جج محمد ارشد ملک سے ملاقات کے لیے انکے چیمبر میں گئے۔ جہاں وہ اے آروائے دیکھ رہے تھے۔ ان سے مطالبہ کیا جس طرح جج محمد بشیر نے اجازت دے رکھی تھی آپ بھی کیس کور کرنے دیں۔ انہوں نے اس وعدے کیساتھ بھیجا کہ پولیس اور انتظامیہ سے بات کرنے کے بعد آپ کو آگاہ کیا جائے گا۔ بعدازاں پولیس نے بتایا کہ جج صاحب نے کہا ہے کہ یہ انتطامیہ کا معاملہ ہے۔ میڈیا جانے اور انتظامیہ ۔ عدالت اس معاملے میں دخل اندازی نہیں دے گی۔ وہاں سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا رخ کیا جہاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت جاری تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتعمل بینچ سماعت کررہا تھا۔ یہ کمرہ عدالت بھی اتنا بڑا نہیں۔ وکلا اور دیگر لیگی رہنماوں سے بھر چکا تھا مگر میڈیا پراس بنیاد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی بلکہ میں تھوڑا تاخیر سے پہنچا پولیس اہلکار نے مجھے دیکھ کر شادی کی مبارک باد دی اور میرے لیے جگہ بنانی شروع کردی ۔ نواز شریف کے وکلا کی ٹیم اور ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل نیب سردار مظفر روسڑم پر موجود تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے استفسار پر فریقین کے وکلاء نے بینچ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا جس کے بعد سماعت کا باضابطہ آغاز ہوا۔ نیب پراسیکوٹر کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کی اور تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ معلوم ذرائع آمدن اور اثاثوں کی مالیت کا پتہ لگائے بغیر کیسے آمدن سے زائد اثاثے قرار دیے گئے۔جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہ خواجہ صاحب کی بات میں وزن لگ رہا ہے اس لیے پہلے عدالت کو معاملہ سمجھنے دیں۔ عدالت نے نیب پراسیکوٹر سےپوچھا کیا یہ معلوم ہے کہ 1993 میں یہ فلیٹس کتنے میں خریدے گئے جس پر نیب پراسیکوٹر نے جواب دیا کہ یہ معلوم نہیں کیا گیا۔ عدالتی استفسار پر نیب پراسیکوٹر سردار مظفر نے بتایا کہ 9 اے فور میں نواز شریف کی بریت کو چیلنج نہیں کیا۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا نیب نے تسلیم کرلیا کہ لندن فلیٹس کرپشن یا بدعنوانی سے نہیں خریدے گئے جس پر سردار مظفر بولے نائن اے فائیو میں سزا سے مطمئن ہیں اس لئے نائن اے فور کو چیلنج نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ کرپشن الزامات پر بریت کو چیلنج نہ کرکے نیب تسلیم کرچکی کہ درخواست گزار (نواز شریف) کرپٹ نہیں۔جس پر سردار مظفر نے کہا 9 اے فائیو میں سزا ہوئی وہ بھی کرپشن ہی ہے کوئی ون ویلنگ سے متعلق تو ہے نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ مریم نواز کو کیسے سزا ہوئی وہ بتائیں۔ جس پر سردار مظفر نے بتایا کہ مریم نواز کو بینفشل مالک ثابت کردیا ہے۔شواہد سے ٹرسٹ جعلی ثابت کی۔ اسی دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پانچ منٹ کا وقفہ کررہے ہیں۔ وقفے کے بعد بھی نیب پراسیکوٹر کو بینچ کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا تھا۔ سردار مظفر بولے یہ درخواستیں نواز شریف کے وکلا نے دائر کی ہیں۔ پہلے یہ اپنے دلائل مکمل کرلیں تو میں جواب دوں گا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب میڈیا سے مخاطب ہوئے اور تنبیہ کرتے ہوئے کہا کیس کی رپورٹنگ کرتے وقت حقائق کو مدنظر رکھا جائے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اور شفاف ٹرائل کا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن نے واضح کیا کہ ابھی عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا میڈیا غلط تاثر نہ دے۔ ابھی ان سوچوں میں گم تھے کہ ایسا ہم نے کیا کردیا جوبینچ کی طرف سے ناراضی کی اظہار کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی میرے موبائل پراسی سماعت کے ٹکرز موصول ہوئے۔ وہ ٹکرز جسٹس اطہر من اللہ سے منسوب تھے میں حیران رہ گیا اتنی اہم باتیں مجھ سے کیسے رہ گئیں۔ ساتھ بیٹھے دوسروں دوستوں کو بھی موصول ہوئے۔ معلوم ہوا کہ وہ کسی نے بڑی پلاننگ کے تحت گروپس میں وائرل کیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہر کسی کے موبائل میں موجود تھے۔ اللہ نے عزت رکھی اور کسی نے بھی وہ ٹکرز فائل نہیں کیے۔ عدالت نے سماعت ملتوی کردی اور خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ وہ 15 اگست کو دلائل دیں جبکہ نیب پراسیکوٹر کو کہا گیا کہ وہ بھی مکمل تیاری کے ساتھ دلائل دیں۔ سماعت ختم ہوگئی مگر موبائل پر اس سماعت کے ٹکرز شام تک مختلف ذرائع سے موصول ہوتے رہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے