کالم

ہم بھی کیا لوگ ہیں

جنوری 5, 2019 3 min

ہم بھی کیا لوگ ہیں

Reading Time: 3 minutes

احساس/ اے وحید مراد
اسلام آباد کی صبح بارش میں نہا رہی تھی ۔ چھت پر تیز بارش کے شور نے جلدی بستر چھوڑ کر دل میں چھپے بچے کو کاغذ کی کشتی بنانے پر مجبور کرنا چاہا مگر غم روزگار نے روک دیا ۔ چائے کی پیالی پکڑ کر ٹیرس کے سامنے ایری کیریا کے درخت سے کھیلتی پھوار پر نظریں مرکوز کیں ۔ سوچنے کو اور بھی بہت کچھ تھا مگر نجانے کیوں جیب میں ہاتھ ڈال کر بنک کر رسیدیں کھول کر دیکھنا شروع کر دیں ۔
اے ٹی ایم کی رسید کہہ رہی تھی کہ سال نو کے آغاز پر کٹوتی پندرہ روپے سے بڑھ کر اٹھارہ روپے ۷۵ پیسے ہوگئی ہے۔ چھوٹی بہن نے گزشتہ روز فون خریدنے کیلئے اے ٹی ایم استعمال کرنا چاہا تو بلیو ایریا میں دو بنکوں کی مشینیں خراب پڑی تھیں ۔ تیسری مشین سے رقم نکالنے کے بعد اس نے مجھے بتایا تھا کہ فیس بڑھ گئی ہے مگر زیادہ توجہ نہیں دی تھی ۔ اب غور کر نے پر معلوم ہوا کہ نیا پاکستان زبردستی بنایا جا چکا ہے ۔
چند دن قبل گیس کا بل دیکھا تو سمجھ آ گئی تھی کہ نیا پاکستان اور نیا سال ہے ۔ گاؤں سے بہنوئی نے فون پر بتایا تھا کہ پچاس یونٹ تک بجلی کے استعمال پر سبسڈی ختم کی جا چکی ہے ۔ گاؤں میں سردی کے موسم میں جو بل ایک سو اسی روپے (جی ہاں، اتنا ہی بل آتا تھا) پچاس یونٹ تھا اب بڑھ کر پانچ سو سے زیادہ ہو چکا ہے ۔ موبائل فون خریدنے کیلئے گئے تو پتہ چلا کہ تبدیلی کی باتیں مذاق نہیں ہیں، سچ میں بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ کاروبار کم ہے تو ٹیکس کے ڈر یا انجانے خدشات کی وجہ سے نرخ چار سے پانچ ہزار بڑھائے جا چکے ۔
ابھی یہ سب باتیں دماغ میں چل رہی تھیں کہ خیال آیا گھر کے کوڑے کو باہر رکھنا ہے تاکہ صفائی کرنے والے اٹھا کر لے جا سکیں ۔ دروازے کے باہر کوڑا رکھ کر بارش سے بچنے کیلئے تیزی سے مڑا تو گلی کے نکڑ سے آواز آئی سر جی ۔ رکا، گلی میں نظر دوڑائی تو بلدیہ کا ایک ملازم دوسرے گھروں کا کوڑا ریڑھی میں ڈالے تیزی سے آتا دکھائی دیا ۔
قریب پہنچ کر کہنے لگا کہ سرجی، پیسے دے دیں ۔
پوچھا، کس چیز کے پیسے؟
کہنے لگا کہ مہینے کے پیسے۔
کس بات کے مہینے کے پیسے؟
جی، کوڑا اٹھانے کے ۔
کیا آپ سی ڈی اے کے ملازم نہیں؟ سرکار تنخواہ نہیں دیتی؟
جی وہ تو ہیں مگر سب لوگ مہینے کے پیسے دیتے ہیں ۔ یہ ریڑھی وغیرہ بھی ہے تو ۔۔
ٓآپ کے ڈائریکٹر کا نام کیا ہے؟
جی ۔۔ وہ ۔
یار، میں بھی سرکاری ملازم ہوں۔ سی ڈی اے میں ہوتا ہوں ۔ سرکار ہی تنخواہ دیتی ہے ۔
اس نے کچھ جھینپ کر کہا، سر جی وہ کوڑا صبح کے وقت ہی رکھا کریں، لوگ رات کو رکھتے ہیں تو بلیاں اس کو بکھیر دیتی ہیں ۔
بارش میں مزید کھڑے رہنا دانش مندی نہ تھا ۔ واپس گھر میں داخل ہوتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس صفائی کرنے والے سرکاری ملازم کا بھی کیا قصور ۔ ایک طرف نیا پاکستان میں جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو دوسری جانب نئے پاکستان کا بانی بھی اسی مشن پر ہے جس پر اس خاکروب نے خود کو لگایا ہے ۔
اپنے کام کو مکمل دیانتداری سے کرنے اور اس کی تنخواہ لینے کے بجائے مانگنے کا مشن زور و شور سے جاری ہے ۔ کیا ڈوبتی معیشت عزت و حمیت کا بھی جنازہ نکال دیتی ہے؟۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے