کالم

استثنا اور غلط فہمی

جنوری 17, 2017 5 min

استثنا اور غلط فہمی

Reading Time: 5 minutes

اے وحید مراد
مقدمہ سیاسی ہے، مگر درخواست بھی عمران خان کے وکیل نے انتہائی عجلت میں عامیانہ طور پر لکھ کر دائر کی ہے۔ ایسی درخواست کے خلاف دفاع میں مخدوم علی خان جیسا گھاگ اور آئین وقانون کا ماہر وکیل ہو تو پھر بے عزتی پروگرام کیلئے درخواست گزار اور اس کے وکیل کو تیار رہنا چاہیے۔ مخدوم علی خان نے ٹیکس گوشواروں اور دولت پر ٹیکس نہ دینے کے الزام کا دفاع شروع کیا تو عمران خان کے وکیل اپنی نشستوں پر کسمسا کر رہ گئے۔ مخدوم علی خان نے کہا درخواست گزار نے 1980 میں گلف اسٹیل مل کا قصہ چھیڑا ہے، اسٹیل مل بیچنے پر ملنے والے 9 ملین ڈالر پر وزیراعظم کی جانب سے دولت ٹیکس نہ دینے پر عدالت سے نااہلی کی استدعا کی ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس کا یہ قانون آج سے چودہ برس قبل 2003 میں ختم ہوچکا ہے، اور اس قانون کے تحت بھی صرف چار برس پرانے معاملے پر ٹیکس چھان بین کیلئے کہا جاسکتا تھا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا بات تو درست ہے کہ اس قانون کے مطابق کسی رکن پارلیمان سے چاربرس پرانی ٹرانزیکشن کا ہی پوچھا جاسکتا تھا، اب کوئی ایسی مشینری ہی دستیاب نہیں کہ پیچھے جاکر چھان بین کی جاسکے۔ مخدوم علی خان نے کہا معاملہ یہاں تک محدود نہیں، ان کی درخواست میں پہلی استدعا ہے کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے جبکہ چھٹی استدعا ہے کہ وزیراعظم کی دولت اور ٹیکس کی چھان بین کیلئے فیڈرل بورڈ آف ریونیوکو حکم دیا جائے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر عدالت پہلی استدعا قبول کرتی ہے تو چھٹی استدعا پر کارروائی ممکن نہیں رہتی اور چھٹی استدعا قبول کرتی ہے تو پہلی استدعا پر نااہلی ممکن نہیں۔ جب تک تحقیقات نہ ہوں، کسی عدالت میں ٹیکس چھپانا ثابت نہ ہو اور سزا نہ سنائی جائے اس وقت تک کچھ بھی ممکن نہیں۔ وزیراعظم کے وکیل نے درخواست گزاروں کی جانب اشارہ کرکے مشکل سا انگریزی محاورہ پھینک کر جگت بازی کی کوشش کی، مجھے جو سمجھ آیا اس کامطلب ہے کہ ’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘۔
عدالتی کارروائی کا آغاز جسٹس آصف کھوسہ نے نیوزی لینڈ کی پریوی کونسل کے ایک فیصلے کاحوالہ دے کر کیا، ان کا کہنا تھا نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں کچھ ارکان نے تقاریر اور بحث کی، ایک شخص پر الزامات لگائے، ایک رکن پارلیمان سے ایوان کے باہر رپورٹر نے سوال کیا تو اس نے جواب دیا، پارلیمان میں جو کہاہے اس پر قائم ہوں۔ متاثرہ شخص پریوی کونسل گیا اور عدالت نے صرف اس رکن پارلیمان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں فیصلہ دیدیا کیونکہ اس نے الزام کی توثیق پارلیمان سے باہر کی تھی اور اس بات کو استحقاق یا استثنا حاصل نہیں تھا، اس رکن پارلیمان کے خلاف پارلیمان میں کی گئی تقریر بطور شہادت پیش کی گئی تھی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے برطانیہ کی ایک عدالت کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھاکہ پارلیمان کی تقریر کو استثنا حاصل ہے مگر یہ استحقاق کرپشن پر نہیں۔
وزیراعظم کے وکیل نے پانچ رکنی بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے بھارت، امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے قوانین کے حوالے دیے جہاں اراکین کی پارلیمان کی ایوان میں کی گئی ہرقسم کی بات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ مخدوم علی خان نے کہا آرٹیکل چھیاسٹھ کے تحت حاصل استحقاق کی وجہ سے پارلیمان میں اظہار کی آزادی کا تحفظ ہوتاہے اور آرٹیکل اڑسٹھ کے تحت پارلیمان میں عدلیہ اور ججوں سے متعلق گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ بھارتی آئین کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا پارلیمان میں رائے کے اظہار کی آزادی بھارت میں بھی ہماری طرح ہے ، تاہم وہاں پارلیمان ہی ججوں کو ہٹانے کی کارروائی کرسکتی ہے باقی ان کے آئین کا آرٹیکل پاکستانی آئین سے ملتاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اب وہاں بھی ہماری طرح سپریم جوڈیشل کونسل بنانے کی بات ہورہی ہے تاکہ ججوں کو ہٹانے کیلئے پارلیمانی دباﺅ ختم ہوسکے ، وہاں جج محفوظ نہیں پارلیمان کسی بھی وقت ناخو ش ہوسکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے اس پر جملہ اچھالا کہ یہاں پارلیمان عموما ہی ناخوش رہتی ہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے آئین اراکین پارلیمان ، صدر، گورنرز اور وزیراعظم کو حاصل استثنا کی بات شروع کی تو پہلے آئین کا آرٹیکل 248 پڑھا، کہا صدر اور گورنرز کو مکمل جبکہ وزیراعظم کو صرف اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کی حدتک عدالتی کارروائی سے استثنا ہے۔ پھر چودھری ظہورالہی کیس کاحوالہ دیا، کہا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لائل پور میں ایک تقریر کی تھی جس پر ان کے خلاف مقدمے کیا گیا۔ وکیل نے مقدمے کا فیصلہ پڑھنا مکمل کیا تو جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس کیس میں یہ حوالہ اس لیے درست نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر پارلیمان میں نہیں کی گئی تھی اورانہوں نے آرٹیکل 248 کے تحت استثنا مانگا تھا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا وزیراعظم گیلانی کیس میں ہم نے ان کے وکیل سے کئی بارپوچھا تھا کیا 248 کے تحت استثنا مانگ رہے ہیں مگر جواب نہیں دیا گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ ٹی وی پر وہ استثنا کا کہتے رہے تھے۔
جسٹس گلزاراحمد نے وزیراعظم کے وکیل سے پوچھا کیا آرٹیکل 19 کے تحت حاصل اظہار رائے کی آزادی پر دلائل نہیں دیں گے؟۔ وکیل نے کہا آرٹیکل انیس کی آزادی سب کیلئے ہے اور اس کو صحافی، لکھاری، ادیب استعمال کرتے ہیں، رکن پارلیمان کیلئے آرٹیکل چھیاسٹھ پر ہی اکتفا کرتا ہوں جو صرف آئین کے آرٹیکل اڑسٹھ اور 204 سے مشروط ہے اس کے علاوہ کسی بات پر پکڑ نہیں ہوسکتی۔ وکیل نے کہا آئین میں ’آئین سے مشروط‘ کے الفاظ کل ستائیس مقامات پر آئے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ کا مقدمہ آرٹیکل انیس کا نہیں جو اظہار کی آزادی کامعاملہ ہے۔ وکیل نے جواب دیا مجھے عدالت کی جانب سے اس طرف لایا گیا خود سے اس پر دلائل نہیں دیے، اظہار کی آزادی کا میرا مقدمہ صرف پارلیمان میں کی گئی تقریر کی حد تک ہے ۔ وکیل نے یورپی یونین کی انسانی حقوق عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا پارلیمان میں’ کہہ دینا‘ اور ’کردینا‘ کوالگ دیکھا جاتاہے مگر استثنا حاصل ہوتاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے مذاق کیا کہ دنیا بھر میں پارلیمنٹ میں اراکین ایک دوسرے کو مارتے بھی ہیں، وہ’ کردینے‘ میں آئے گا، ان کو عدالتوں میں نہیں لایا جاسکتا۔
عدالتی وقفے کے دوران مخدوم علی خان باہر نکلے تو رپورٹروں نے گھیر لیا، پوچھا کیا وزیراعظم نے 248 کے تحت استثنا مانگ لیاہے، ہم نے تو خبر چلادی ہے۔ وکیل حیران ہوکر بولے کہ میرے دلائل صرف آرٹیکل چھیاسٹھ کی حد تک ہیں۔ خیر معلوم ہوا کہ ایک رپورٹر کی غلط فہمی کی وجہ سے ایک جملہ غلط رپورٹ ہوگیا اور ٹی وی اسکرینوں پر کہرام مچ گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کے اندر بیٹھا ایک رپورٹر غلطی کرلے تو باہر کھڑے دس ٹی وی چینلوں کے رپورٹر اس کی خبر کو اٹھا کر اپنے دفاتر بھیج دیتے ہیں، آج بھی یہی ہوا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا پوری دنیا کے قانون کے حوالوں کی ضرورت نہیں کیونکہ اس مقدمے میں مختلف معاملہ ہے، وزیراعظم نے بطور دفاع ایک تقریر کی اور اس کو ایک مقدمے میں منسلک کرکے عدالت لایا گیاہے۔ وکیل نے کہا درخواست گزار نے وزیراعظم کی تقریر کو بنیاد بنا کر نااہلی کی استدعا کی ہے اس لیے آرٹیکل 66 آڑے آئے گا کیونکہ یہ پارلیمان کے تمام اراکین کا اجتماعی استحقاق ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا درخواست گزار کے مطابق تقریر مکمل طور پر غلط بیانی ہے کیونکہ دستاویزات کچھ اور کہہ رہی ہیں، یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم کاخطاب اور اسمبلی تقریر میں تضاد ہے۔ وکیل نے کہا وزیراعظم کے خطاب کیلئے آرٹیکل چھیاسٹھ کی بات نہیں کی، صرف اسمبلی تقریر کو استحقاق حاصل ہے، سپریم کورٹ کسی بھی چیز کا جائزہ لے سکتی ہے مگر استدعا ہے آرٹیکل چھیاسٹھ کو مدنظر رکھے۔ وکیل نے کہا وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں ایسی بات نہیں کی جس پر عدالت سے ان کی نااہلی مانگی جائے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا حسین نواز نے اپنے انٹرویو میں مختلف بات کی تھی، کیا باپ بیٹے میں سے ایک کے سچ کوماننا پڑے گا؟۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا باپ یا بیٹے میں سے کسی کا بھی سچ دیکھنا ہومگر اس بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ رکن پارلیمان ہیں اور اس طرح کا فیصلہ پھر تمام اراکین پارلیمنٹ پر لاگو ہوگا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا رکن پارلیمان ہونے پر زور کیوں دے رہے ہیں، ہمیں جلدی نہیں، عدالتی فیصلے موجود ہیں ان کو بھی دیکھیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا معاملہ لندن کے فلیٹوں کی خریداری کا ہے جس پر درخواست گزار عدالت آئے ہیں۔ وکیل نے کہا صرف وزیراعظم سے متعلق دلائل دوں گا، بیٹوں اور بیٹی کے وکیل موجود ہیں وہ عدالت کے تمام سوالات کا جوا ب دیں گے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے