کالم

بیانیہ نہیں عملیہ

ستمبر 19, 2017 6 min

بیانیہ نہیں عملیہ

Reading Time: 6 minutes

ہمیں پچھلے ستر سال سے بیانیے کی کھیر کی بیچنے سے ہی فرصت نہیں۔ بیانیے کی کھیر اسے بیچنی پڑتی ہے جو تنازعات میں گھرا ہو اور وہ سنجیدہ حل کے بجائے انہیں ہوا دیتا ہو۔ ہم مختلف اوقات میں مختلف تنازعات کے اسیر ہوئے سو ہمیں اس کھیر کے کئی فلیور بنانے پڑے مگر ہماری ان جملہ اقسام کی کھیروں کا مشترک وصف یہ ہے کہ ہر کھیر ہم نے ٹیڑھی ہی بنائی۔ اگر ان تنازعات پر نظر ڈالی جائے تو برصغیر کی تقسیم کے وقت این ڈبلیو ایف پی کے حوالے سے تقسیم کاروں نے ریفرنڈم کا فارمولا اختیار کیا۔ یہ فارمولا ایک ایسے علاقے کے لئے اختیار کیا گیا جو ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت برطانیہ نے ایک مخصوص عرصے کے لئے اپنے کنٹرول میں رکھا تھا اور جو تاریخی لحاظ سے ہندوستان نہیں بلکہ افغانستان کا حصہ تھا۔ ریفرینڈم کے نتائج نے ظاہر کردیا کہ اس علاقے کے لوگ اب افغانستان سے جڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے لیکن چونکہ اس علاقے کا تصفیہ ایک مخصوص مدت کے لئے زیر التوا تھا سو افغانستان کے پاس دعوے کی ٹھوس وجہ تو تھی۔ لیکن تب افغانستان کی بدنصیبی یہ تھی کہ اس علاقے کے لوگ ہی اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے، ان کا من بدل گیا تھا اور پاکستان کی بدنصیبی یہ ہوگئی کہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ اسے ورثے میں مل گیا۔ یوں پاکستان بنتے ہی ہمیں بیانیے کی کی پہلی کھیر بنانی پڑگئی۔ ابھی ہم نے اپنی پہلی کھیر کی دیگ چڑھائی ہی تھی کہ کشمیر میں بھارت کی فوج داخل ہوگئی۔ ہم نے ہنگامی طور پر پختون قبائل کو مقابلے کے لئے بھیجا جو کشمیر کا وہ حصہ بھارت سے چھڑانے میں کامیاب ہوگئے جو آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ یہ ایک نیا تنازعہ تھا سو ہمیں بیانیہ کھیر کا ایک نیا فلیور بھی ہنگامی طور پر تیار کرنا پڑا۔

ہم نے دنیا کو اپنی یہ دنوں کھیریں بیچنے کی بھرپور کوشش کی لیکن حاصل صرف یہ رہا کہ ان دونوں تنازعات نے انڈے بچے دینے شروع کردئے۔ بلی مرغی کا انڈہ یا بکری کا بچہ نہیں دیتی، بلی جنم بھی بلی کو ہی دیتی ہے سو ہمیں درپیش ان دونوں تنازعات نے بھی تنازعات ہی کو جنم دیا۔ 65 اور 71کی جنگیں مسئلہ کشمیر کے انڈے بچے تھے تو پختونستان اور گریٹر بلوچستان مومنٹس ڈیورنڈ لائن تنازعے کے۔ یوں ہمیں ان دونوں حوالوں سے کچھ اضافی کھیروں کی ضرورت بھی پیش آگئی۔ کھیروں کی اس تجارت میں ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے تو بھارت سے نمٹنے کے لئے ہم نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی جبکہ افغانستان کو سبق سکھانے کے لئے ہم نے پراکسی وار کا ہی فارمولہ آزمانے کا فیصلہ کر لیا جس کی بڑی پیش رفت افغان جہاد کی صورت ہوئی۔ افغان جہاد میں تو ہمارے مزے تھے کہ دنیا کے 102 ممالک ہمارے اتحادی تھے سو ہمیں کسی بیانیے کے تکلف میں پڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی لیکن ایٹمی پروگرام کا تحفظ بیانیے کی نئی کھیر کا متقاضی تھا جو ہم نے بنائی۔ افغان جہاد کے اختتام پر 102 اتحادی ممالک اڑن چھو ہوئے اور ہم اس محاذ پر تنہاء کھڑے کبھی آپس میں لڑتے احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کو تو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے۔ ہم نے ان کا حل افغان طالبان کی صورت نکالا تو یہ ایک نیا تنازعہ بن گیا یوں ہمیں بیانیے کی ایک نئی کھیر درکار ہوئی۔ بیسویں صدی کے آخری سالوں میں ہم نے کارگل کی آفت گلے میں ڈال لی جس نے ایک عدد مزید بیانیہ کھیر کی طلب پیدا کردی۔ لیکن پھر وہ ہوا جس کا کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ اکیسویں صدی کا آغاز نائن الیون سے ہوگیا اور اس آغاز نے دنیا میں وہ زلزلہ برپا کیا جس سے پچاس سال میں ہماری بنائی جملہ اقسام کی کھیروں کی دیگیں الٹ گئیں۔ گزرے پچاس سالوں کی تمام بیانیہ کھیروں کا ذائقہ مل کر اگر کوئی خلاصہ پیش کرتا تھا تو وہ یہ تھا کہ ’’پاکستان اسلام کا قلعہ ہے‘‘ نائن الیون نے ہماری دیگیں الٹیں تو ہم نے یوٹرن لیتے ہوئے تمام مشرقی ریسپیوں کو زمین میں دفنا کر ہنگامی طور پر مغربی ریسپی اٹھائی اور ایک مغربی فلیور والی کھیر بنالی۔ اس نئی کھیر کے ذائقے کا خلاصہ تھا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ جس کا مطلب تھا کہ اسلام اور عالم اسلام جائے تیل لینے، آج کے بعد ہم اسلام کیا اس کے کسی چھوٹے موٹے فرقے کا بھی قلعہ نہیں ہیں۔
ہماری مشرقی ذائقوں کی عادی زبانیں اس نئی کھیر سے مانوس نہ ہو سکیں یوں داخلی طور پر شور شرابا شروع ہوگیا۔ ٹی ٹی پی اور صوفی محمد جیسے لوگوں نے پاکستان کو ایک ایسا ملک کہنا شروع کردیا جس کا نظام کفر پر مبنی ہے۔ حد یہ ہوئی کہ ان کا ساتھ دینے کے لئے وہی قوتیں ان کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں جنہیں متاثر کرنے کے لئے ہم نے یہ نئی مغربی کھیر تیار کی تھی۔ گویا ہماری پچھلی کھیر کی طرح یہ نئی کھیر بھی کسی کو متاثر نہیں کر رہی تھی۔ سولہ سال بعد اب ہم اس کھیر کو بھی ترک کر رہے ہیں اور شنید ہے کہ خارجہ اور دفاع کی وزارتیں کوئی نئی چیز تیار کررہی ہیں۔ اس بار شاید کھیر نہیں بلکہ چاؤمنگ تیار ہورہی ہے کہ کیونکہ اب کی بار ہم چائنا کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ چین نے برکس سمنٹ کے اعلامیے کی صورت پیغام دیا ہے کہ ہمیں متاثر کرنا ہے تو مسعود ازہری شملہ مرچ اور حافظ سعیدی گاجریں اس چاؤمنگ میں مت ڈالنا ورنہ ہم منہ بھی نہیں لگائیں گے۔ ہماری ماضی کی بیانیہ کھیریں اپنے ذائقے اور خوشبو سے دنیا کو کتنا متاثر کرتی تھیں اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ جب مولانا فضل الرحمن محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں خارجہ امور کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بنے تو ایک دن انہیں وزیر خارجہ والی فیلنگ آنی شروع ہوگئی۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر والے بیانیے کی کھیر کا تھال سر پر رکھا اور سیدھے قاہرہ ایئرپورٹ پر جا اترے۔ وہ حسنی مبارک سے ملے اور انہیں اپنی کھیر چکھا کر آڈر بک نکالی تو حسنی مبارک نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم رسمی حمایت تو کریں گے لیکن ہم سے کسی سرگرم کردار کی امید نہ رکھی جائے۔ پاکستان میں مولانا نے کی قوت استدلال کا بڑا شہرہ تھا، انہوں نے اسی کو کام میں لاتے ہوئے فورا فرمایا، ہم مسئلہ فلسطین پر آپ کی سرگرم حمایت کرتے ہیں تو آپ کو بھی مسئلہ کشمیر پر ہماری سرگرم حمایت کرنی ہوگی۔ حسنی مبارک نے مسکراتے ہوئے مصری قہوے کی چسکی لی اور مولانا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، ہم نے کب آپ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ آپ مسئلہ فلسطین پر ہماری حمایت کریں ؟ کیا عرب دنیا کا کوئی سربراہ یا وزیر خارجہ آپ کے پاس کبھی یہ مطالبہ لے کر آیا ؟مسئلہ فلسطین ہم عربوں کا داخلی مسئلہ ہے اس سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ سنتے ہی مولانا نے اپنے ترکش کا سب سے خطرناک تیر نکالا اور اسے حسنی مبارک پر داغتے ہوئے فرمایا، مسئلہ فلسطین سے سے بیت المقدس جڑا ہوا ہے لھذا یہ صرف عالم عرب کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور اس کے لئے جد و جہد کرنا ہمارا مشترکہ دینی فریضہ ہے۔ حسنی مبارک نے قہوے کا آخری گھونٹ بھرا اور اپنی مسکراہٹ میں مزید اضافہ کرتے ہوئے مولانا سے کہا، اگر بیت المقدس کی وجہ سے یہ آپ کا بھی مسئلہ ہے تو پھر تو یہ خالص اللہ کی رضاء والا کیس ہوا۔ آپ اپنے دینی فریضے کی ادائیگی کا احسان ہم عربوں پر کیوں چڑھا رہے ہیں ؟ اور یوں قاہرہ کے صدارتی محل میں ہماری بیانیہ کھیر دھری کی دھری رہ گئی۔ وہ دن ہے یہ دن ہے مولانا کشمیر کمیٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود مسئلہ کشمیر پر چپ چپ سے رہتے ہیں۔ اس صورتحال میں جملہ باورچیان وطن سے دست بستہ اپیل ہے کہ بیانیے کی کھیریں اور چاؤمنگ بنانا چھوڑیے اور غور کیجئے کہ برطانیہ نے افغانستان سے ڈیورنڈ لائن معاہدہ کیوں کیا تھا ؟ کیونکہ سرحد پر مستقل ٹینشن اور روز روز کی جھڑپیں اسے فائدہ نہیں نقصان پہنچا رہی تھی۔ ہانگ کانگ پر چائنا نے اس سے ملتا جلتا معاہدہ کیوں قبول کیا تھا ؟ تاکہ اس تنازع کے نتیجے میں نقصانات کے تسلسل سے بچا جاسکے۔ کیا ہم برطانیہ اور چائنا سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تنازعات کو ہوا دے دے کر اپنی نسلوں کا مسلسل نقصان کرتے رہیں ؟ جب ہانگ کانگ معاہدے کی ڈیڈ لائن کا وقت آیا تو چین ایک قوت بن چکا تھا جبکہ برطانیہ سکڑتے سکڑتے ایک جزیرے جتنا ہوچکا تھا نتیجہ یہ کہ ہانگ کانگ ایک گولی چلائے بغیر چین کو مل کر رہا۔ ہمارے ہاں جب ڈیورنڈ لائن معاہدے کی ڈیڈ لائن کا وقت آیا تو پاکستان افغانستان سے زیادہ قوت والا ملک بن چکا تھا اور افغانستان خود کو پاکستان سے مستقل پنگے کے نتیجے میں کھنڈر بنوا چکا تھا سو ڈیورنڈ لائن معاہدے کی ڈیڈ لائن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ تنازعات کو ہوا دینا اور اس کے نتیجے میں بھڑکنے والے شعلوں کو بیانیے سے چھپانے کی پالیسی ناکام ہوچکی۔ اس پالیسی کے ذریعے ہم اپنے ستر سال، کھربوں ڈالر اور آدھا ملک گنوا چکے۔ بیانیہ نہیں عملیہ تبدیل کیجئے !

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے