کالم

دو وزرائے اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقاتیں

مارچ 27, 2018 3 min

دو وزرائے اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقاتیں

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

وہ سولہ فروری دو ہزار دس کی رات آٹھ بجے کا وقت تھا جب سپریم کورٹ کے ہال میں جسٹس خلیل الرحمان رمدے کو ریٹائرمنٹ کے موقع پر عشائیہ دیا جا رہا تھا ۔ ججوں سے دو چار میٹر کے فاصلے پر ہم چار پانچ رپورٹرز ایک ٹیبل پر بیٹھے ہنسی مذاق کرتے ہوئے تقریب کے آغاز کے منتظر تھے ۔ اچانک ہال کا دروازہ کھلا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اندر آئے ۔ شاہراہ دستور کے سامنے بنا عدالت کا یہ دروازہ باہر سے بہت اونچائی پر نظر آتا ہے ۔

وہ ملاقات عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری سرد جنگ کے دوران ہوئی تھی اور دلچسپ بات یا اتفاق یہ ہے کہ اس میں بھی جسٹس ثاقب نثار ہی ایک فریق تھے ۔ یوسف رضا گیلانی کو چیف جسٹس افتخار چودھری کے پاس رات کے وقت سپریم کورٹ اس لیے آنا پڑا تھا کہ اس سے قبل صدر آصف زرداری نے اپنے وزیر قانون بابر اعوان کے کہنے پر ججوں اور خاص طور پر افتخار محمد چودھری سے غیر ضروری پنگا لیا تھا ۔

معاملہ کچھ یوں تھا کہ چیف جسٹس نے صدر مملکت کو سفارش کی کہ جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ کا جج لگانے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا جائے ۔ افتخار چودھری چاہتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو وہیں رہنے دیا جائے ۔ بابر اعوان نے صدر زرداری کو قائل کیا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی خواہش پوری نہ ہونے دی جائے ۔ صدر مملکت نے چیف جسٹس کی سفارش کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگانے کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا ۔

غصے میں بھرے چیف جسٹس نے عدالت لگائی اور وزارت قانون کا جاری کردہ نوٹی فیکیشن معطل کر دیا ۔ ملک میں انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان سرد جنگ اس فیصلے سے بڑھ گئی ۔ عدالتی فیصلے کے بعد سیاسی کارکنوں اور وکلا نے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں احتجاج کیا ۔ اگلے دن اپوزیشن نے حکومت کے نوٹی فیکیشن کی مذمت کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عدلیہ بحالی پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے بیان دیا اور پھر مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کی ۔

ملکی تاریخ میں یہ ہنگامہ خیز ہفتہ سترہ فروری دو ہزار دس کو اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب وزیراعظم گیلانی کے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان کی دعوت پر اگلے روز وزیراعظم ہائوس تشریف لے گئے  ۔ رات کی ملاقات عشائے پر تھی اور ہم سب اس کے گواہ تھے، اگلے دن وزیراعظم ہائوس والی ملاقات ون آن ون تھی اور اس کے بعد حکومت نے بابر اعوان کے مشورے پر جاری کیا گیا نوٹی فیکیشن واپس لے لیا ۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف کھوسہ کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا دوسرا نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا ۔ خواجہ شریف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہی رہے اور افتخار محمد چودھری کی جیت ہوئی ۔

آٹھ برس قبل رات کے وقت ہی وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات آج اس وقت یادداشت میں تازہ ہو گئی جب عدلیہ اور حکومت کے درمیان سرد جنگ کا دور چل رہا ہے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اچانک چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے لئے عدالت عظمی پہنچے ۔ ہم جیسے رپورٹر خبر بریک کرنے کے بعد ایک بار پھر شاہراہ دستور کے کنارے کھڑی عمارت تک بھاگے بھاگے پہنچے ۔ دو گھنٹے کی ملاقات میں کیا ہوا، یہ کہانی سپریم کورٹ سے جاری پریس ریلیز ہی بیان کرتی ہے باقی سب قیاس آرائیاں ہیں ۔ ہم جیسے مزدوروں کو صبح نو بجے عدالت پہنچنا ہوتا ہے، رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت سے جاری اعلامیے کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ زندگی یہی ہے ۔

عدالتی اعلامیہ کہتا ہے کہ چیف جسٹس نے وزیراعظم کو یقین دلایا ہے کہ عدلیہ اپنی آئینی ذمہ داریاں آزادانہ، غیر جانبدارانہ شفاف اور کسی خوف و مفاد کے بغیر قانون کے مطابق ادا کرنا جاری رکھے گی جبکہ وزیراعظم نے چیف جسٹس کو آگاہ کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے واٹر پالیسی کی منظوری دی ہے جو چیف جسٹس کے اس ضمن میں کی گئی کوششوں کے ثمرات لانے میں مدد کرے گی ۔ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے چیف جسٹس کو عدالتی اصلاحات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات سے آگاہ کیا جس سے ٹیکس اور مالی معاملات کے مقدمات میں مشکلات کا سامنا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے اور اس کے فوری نمٹانے کے لئے اقدامات کریں گے ۔ اعلامیہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ملاقات وزیراعظم کی درخواست پر ہوئی جو انہوں نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے ذریعے پہنچائی تھی ۔

یوسف گیلانی اور افتخار چودھری کی ملاقات کے بعد بھی پاکستان اسی ڈگر پر چلتا رہا اور مجھے یقین ہے کہ شاہد خاقان اور ثاقب نثار کی ملاقات کے بعد بھی چال پرانی رہے گی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے