پاکستان پاکستان24

وزیراعظم کابینہ پوری نہ کر سکے، چیف جسٹس

جون 25, 2018 4 min

وزیراعظم کابینہ پوری نہ کر سکے، چیف جسٹس

Reading Time: 4 minutes

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ نگران حکومت اپنی کابینہ پوری نہیں کر سکی کام کی توقع کیسے کریں، انہوں نے یہ ریمارکس راولپنڈی اسلام آباد میں پانی کی قلت پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے اس وقت دیے جب حکام نے بتایا کہ پانی کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں، فنڈز ملیں گے تو پانی کے قلیل مدتی منصوبوں پر کام ہو سکے گا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے خود درخواست کریں گے کہ پانی و بجلی کے مسئلے کو دیکھیں اور اس کیلئے کابینہ کا اجلاس بلائیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق سپریم کورٹ/ اسلام آباد میں پانی کی قلت کے از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کے آدھے لوگ پانی سے محروم ہیں، اگر بارشیں نہیں ہوتیں تو لوگوں کو پانی کیسے ملے گا، اسلام آباد میں زیر زمین پانی,خان پور اور سملی ڈیم کا پانی بھی خطرناک حد تک کم ہوچکا ہے ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی جگہ چھوڑی بھی ہے جہاں کنکریٹ نہ کی ہو، کنکریٹ کرنے کے باعث زیر زمین ذخائر کو بارش کا پانی نہیں پہنچ پا رہا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ شہر میں ملک ریاض نے بھی غیر قانونی ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پانی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس کے مطابق اسلام آباد کو 120 ملین گیلن پانی یومیہ درکار ہے، شہر کو صرف 58.71 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ بیس پچیس سال کیلئے پانی کی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، جن لوگوں نے غفلت برتی اور آج کے حالات کے ذمہ دار ہیں ان کے نام بتائیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق میونسپل کارپوریشن کے نمائندے نے کہا کہ واسا راولپنڈی اور کنٹونمنٹ بورڈ راولپنڈی نے ہمارے سات ارب روپے دینے ہیں، جبکہ آئیسکو نے ہمارے دو اعشاریہ چار ارب روپے دینے ہیں، اگر یہ رقوم مل جائیں تو پانی کے قلیل اور طویل المدتی منصوبوں پر کام شروع ہو سکتا ہے ۔ نمائندے نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ اڑھائی سال میٹروپولیٹن کارپوریشن کو ایک روپیہ تک نہیں دیا، ہم سی ڈی اے سے پیسے لے کر تنخواہیں دے رہے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سملی ڈیم اور خان پور ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ چکی ہے، شارٹ ٹرم، مڈٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی کیسے بنانی چاہیے؟ حکام نے بتایا کہ 40 فیصد پانی کی لیکج کا ایشو ہے، حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ فنڈز ملیں اور پالیسی کی منظوری دی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کیا ہے؟ ہمیں بتا دیں، ہم حکومت کو بلالیتے ہیں ۔ واسا کے نمائندے نے عدالت کے پوچھنے پر بتایا کہ ہمارے بھی قرض کے پیسے ہیں واسا بننے سے پہلے کے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ محکموں کو اس نہج تک پہنچانے والوں کو عدالت میں آنا ہوگا، نیب میں انکوائریاں کروائیں گے، اٹارنی جنرل کدھر ہیں؟ آج ان کا پہلا دن ہے وہ عدالت میں نہیں ہیں، جنگی بنیادوں پر کابینہ کی میٹنگ کریں، آج رات کو بھی پانی کے معاملے کو دیکھیں گے، ہم رات تک بیٹھیں گے، فنڈز کے غلط استعمال پر کیوں نہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو بلالیں؟ انہوں نے خود کو ہر محکمے اور وزارت کا انچارج بنایا ہوا تھا ۔

عدالت کو یونین کونسل 12 کے چیئرمین نے بتایا کہ علاقے میں ملک ریاض نے غیر قانونی ٹیوب ویل لگائے ہیں جس سے زیر زمین پانی کی سطح گر رہی ہے ۔ عدالت سے زمرد خان نے استدعا کی کہ راولپنڈی میں پانی کا ٹینکر 8 ہزار کا فروخت ہو رہا ہے، 1500 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے، کینٹ بورڈ کو ٹینکر کی قیمت مقرر کرنے کا حکم دیا جائے، پاکستان ٹونٹی فور کے مطابق عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں پانی کو معدنیات قرار دے چکی ہے، زیر زمین پانی چلتا رہتا ہے، معدنی ذخائر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز عدالت میں تشریف نہیں لائے،حکومت فیصلہ کر لے قانون میں ترمیم کرنی ہے یا فیصلے میں نظر ثانی کرنی ہے، پانی کے مسئلے کا حل وفاقی حکومت کی زمہ داری ہے، کوشش کرتا ہوں ایگزیکٹو کی حدود میں نہ جاؤں، وفاقی اور صوبائی حکومت بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالے ، اٹارنی جنرل اپنے دفتر میں معاملے پر میٹنگ بلائیں، ہم اپنے اختیارات کے اندر رہ کر کر ہدایات جاری کر سکتے ہیں ۔

عدالت کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد میں پانی کے منصوبوں کے لیے فنڈز کی سمری آئندہ ہفتے تک منظور ہو جائے گی، آئندہ ہفتے فنڈز بھی جاری ہو جائیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیموں میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول کے قریب پہنچ چکی ہے، لگتا ہے مون سون شروع نہ ہوا تو جڑواں شہروں میں مشکل آنے والی ہے، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ متعلقہ حکام مسئلہ کا مل بیٹھ کر ایمرجنسی میں حل نکالیں، پانی کی قلت کا ایک بڑا ایشو ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پلاسٹک بیگ اور پلاسٹک بوتل کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہو رہا ہے، میں ازخود نوٹس لوں تو دائرہ اختیار سے تجاوز کا طعنہ ملتا ہے، ایسے معاملات پر ازخودنوٹس نہ لیں تو کیا کریں ۔ ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ بیکٹیریا پینے کے پانی کی وجہ سے ہمارے جسموں میں جا رہا، ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ پانی کے نالوں کی صفائی کا کوئی بندوبست نہیں ہے، ورلڈ آرگنائزیشن کے نمائندوں کے ساتھ راول ڈیم اور سملی ڈیم کا دورہ کیا، راول ڈیم میں صرف گند اکٹھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ نہیں کہنا چاہتے، سیاسی گفتگو کے حوالے سے میرا منہ بند رہے گا۔ سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے