کالم

پانچ کروڑ والے وکیل اور جج صاحبان

ستمبر 10, 2018 4 min

پانچ کروڑ والے وکیل اور جج صاحبان

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

سپریم کورٹ نے ای او بی آئی سے مقدمات میں پیش ہونے کیلئے بھاری فیسیں لینے والے وکیلوں کو ایک بار پھر قانونی پوزیشن واضح کرنے کیلئے کہا ہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ انہوں نے مقدمہ لڑا اور کام کیا اس لئے فیس لی ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ عدالت کے پوچھنے پر وکیل اعتزاز احسن نے بتایا کہ ای او بی آئی سے فیس لینے والے سارے وکیلوں نے جواب جمع کرا دیئے ہیں، میں نے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ کتنی فیس لی اور کام بھی کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماشا اللہ، بہت زیادہ فیس ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ۔ پہلے قانون دیکھنا ہوگا کہ کیا آپ فیس لینے کے مجاز تھے ۔ کسی بھی سرکاری ادارے کو ایک لاکھ سے زیادہ کا وکیل کرنے کیلئے وزارت قانون سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ بابر ستار کو جتنے بھی مقدمات میں وکیل کیا گیا کسی میں بھی ایسی کوئی اجازت نہیں لی گئی ۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ رولز آف بزنس ہیں، ادارے ان ڈور منیجمنٹ کے تحت بھی وکیل کو فیس دینے کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ وہ رولز کمپنی پر لاگو ہوں گے حکومت کے اداروں کیلئے وزارت قانون سے اجازت قانونی تقاضا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکیلوں کی فیس کیلئے ادارے کے بورڈ کی منظوری ضروری تھی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق اعتزاز احسن نے کہا کہ خود مختار اداروں پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ کیا قانون سے روگردانی کی گئی ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ (پیپلز پارٹی کے دور میں لگائے) چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے وکیلوں کو بھاری فیسوں کی ادائیگی کی اور قانونی مشیر لگائے ۔ چیف جسٹس نے اپنے بطور سیکرٹری قانون کے دور کا ایک واقعہ کا بھی حوالہ دیا کہ اس وقت بھی بھاری فیس دینے کیلئے وزارت قانون ہی اجازت دیتی تھی ۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ای او بی آئی نے فیسوں کیلئے نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا، وہ ہمیں فراہم نہیں کیا گیا مگر جہاں تک مجھے محسوس ہوا وہ یہ ہے کہ اسی میں ہدایات جاری کی گئی تھیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات بھی قانون کے مطابق ہی جاری کی جا سکتی ہیں، قانون سے بے خبری کو عذر تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ یہ ادارہ اس قانون میں آتا ہے کیونکہ یہ خودمختار یا سیمی گورنمنٹ ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم نے وکیلوں کو ای او بی آئی سے لی گئی بھاری فیسیں واپس کرنے کا حکم دیا تو یہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان ججوں پر بھی لاگو ہوگا جو اس کیس میں وکیل رہ چکے ہیں، کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا ۔ (اس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی وکیل رہ چکے ہیں) ۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ان فیسوں کی بعد از کام بھی منظوری لئے جانا ممکن ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں ان وکیلوں کو بھی بھاری فیس دی گئی جو اس وقت سپریم کورٹ کے لائسنس یافتہ وکیل نہیں تھے بلکہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کر سکتے تھے، میں کسی کا نام لے کر معاملے کو تعصب کا شکار نہیں کرنا چاہتا۔ (بابر ستار اس دوران روسٹرم پر کھڑے تھے جن کے بارے میں یہ بات کی گئی) ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جس وقت بھاری فیسیں ادا کی گئیں ای او بی آئی تباہ تھا، غریبوں کا مال تھا، غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال ہونا تھا مگر انتظامی کی کوتاہیوں کو چھپانے کیلئے یہ سب کیا گیا ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ فیسیں ان فنڈز کو بچانے کیلئے دی گئیں ۔  چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت قانون اگر اس کو مانتی ہے کہ قانون کے مطابق ہوا یا بعد از کام منظوری سامنے آتی ہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے گا ۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس میں گنجائش ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قوم کا پیسہ ہے، ٹیکس دینے والوں کا پیسہ ہے، غریب پنشنرز کا پیسہ ہے، انتہائی لاپروائی اور بے احتیاطی کے ساتھ بانٹا گیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کل پانچ کروڑ روپے وکیلوں کو فیس دی گئی ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ الزام ہے کہ ظفر گوندل کے دور میں سب کو دیا گیا، یہ منظوری ای او بی آئی نے دی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ای او بی آئی نے بھی قانون کے مطابق دیا؟۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خواب آنے پر نوٹی فیکیشن جاری کرنے کا تو اختیار نہیں ۔ نوٹی فیکیشن کے اجرا کا وقت اور فیسوں کی ادائیگی کا دورانیہ بھی دیکھنا ہوگا ۔ اعتزاز احسن نے استدعا کی کہ جاری کئے گئے نوٹی فیکیشن کی نقل فراہم کرنے کیلئے عدالت ہدایت دے جس پر سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو ای او بی آئی کے فیس اجرا کا نوٹی فیکیشن وکیلوں کو دینے کا حکم جاری کیا ۔

اسی دوران اعتزاز احسن کے معاون وکیل بیرسٹر گوہر روسٹرم پر سرگوشیاں کرتے دیکھے گئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کچھ رہ گیا ہے، کیا کہنا ہے؟ ۔ پھر خود ہی شعر پڑھا کہ

جو گزرتے ہیں گوہر پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں

اس کے بعد کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے