متفرق خبریں

کسی نے تو شروعات کرنی ہیں

فروری 12, 2019 2 min

کسی نے تو شروعات کرنی ہیں

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے قتل کے الزام میں گرفتار اسفندیار نامی شخص کو دس سال بعد بری کر دیا ہے ۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہے کہ مجسٹریٹ نے اس مقدمے میں غلط شناخت پریڈ کرائی، اسے بلا کر پوچھ لیتے ہیں، کسی نے تو معاملات درست کرنے کی شروعات کرنی ہیں ۔

ٹرائل کورٹ نے اسفندیار کو سزائے موت سنائی تھی، ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا جس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے ملزم کو بری کیا جاتا ہے. عدالت کے مطابق مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ کراتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے ۔

سپریم کورٹ نے مجسٹریٹ کنور انوار علی کو 22 فروری کو ذاتی حثیت میں طلب کر لیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیس دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے، ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بچہ قتل ہو گیا اور مجسٹریٹ کی جانب سے غلط شناخت پریڈ اور قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہو گئی، جنهوں نے قانون پر عمل کرنا ہے ان سے پوچهنا تو چاہیے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی ٹریننگ نہیں ہوتی ۔ وکیل نے بتایا کہ مجسٹریٹ کو تعیناتی کے پہلے کورسسز کروائے جاتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالتی فیصلوں اور قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے قانون کو کیوں نہیں دیکها، یہ ملک ہمارا ہے اس میں ہمارے بچوں نے رہنا ہے، کسی نے تو شروعات کرنی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم روز قتل کیسز میں دیکهتے ہیں پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے، ملزم اصلی اور شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم بهی آنکهیں بند کر دیں تو قانون کدهر جائے گا ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ایسا لگتا ہے ملزم گرفتار ہوا پهر شہادتیں بنائی گئیں، کئی مقدمات میں ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ پولیس ملزم تک کیسے پہنچی؟ وکیل نے بتایا کہ مخبر کی اطلاع پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا، ملزم کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ اس نے لاش نہر میں پهینکی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گواہ کہتا ہے کہ اس نے چار بندوں کو نہر میں لاش پهینکتے ہوئے دیکها، دوسرے گواہ کے مطابق دو بندوں نے لاش کو نہر میں پهینکا ۔

واضح رہے کہ لاہور کے رہائشی عادل بٹ کو 2009 میں قتل کر کے اس کی لاش کو نہر میں پهینک دیا گیا تها ۔ قتل کے الزام میں اسفندیار کو گرفتار کیا گیا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے