پاکستان پاکستان24

جعلی بنک اکاؤنٹس: نظرثانی درخواستیں مسترد

فروری 19, 2019 4 min

جعلی بنک اکاؤنٹس: نظرثانی درخواستیں مسترد

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، بیٹے بلاول بھٹو اور دیگر کی جعلی بنک اکاؤنٹس فیصلے پر دائر کی گئی نظرثانی درخواستیں مسترد کر دی ہیں ۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان افراد کے خلاف مبینہ طور پر اربوں روپے بیرون ممالک بھیجنے کی تحقیقات کے لیے نیب کو حکم دے رکھا ہے ۔

چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہے کہ اتنے اہم معاملے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، تحقیقات ہونا چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاوجہ نظرثانی کی اپیلں دائر کرنے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلے پر نظرثانی درخواستیں صرف خدشات کی بنیاد پر دائر کی گئی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی دائر کرنے کے بجائے مراد علی شاہ اور فاروق نائیک کو عدالت کا شکر گزار ہونا چاہئیے تھا ۔

مقدمے میں بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے خالد جاوید ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ مراد علی شاہ کے وکیل مخدوم علی خان تھے ۔

آصف زرداری کی وکالت لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کی جبکہ وکیل شاہد حامد نے انور مجید اور عبدالغنی مجید کی نمائندگی کی ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاونٹس سے مبینہ طور پر اربوں روپے بیرون ممالک سمگل کرنے کی تحقیقات کے لیے دیے گئے عدالتی فیصلے پر دائر کی گئی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیلوں سے کہا کہ اتنی بڑی رقم بیرون ممالک منتقل ہونے پر آصف علی زرداری کی بجائے تو قلفی اور فالودہ بیچنے والے ان افراد کو عدالت میں آنا چاہیے جن کے اکاونٹس استعمال ہوئے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ تو ایسے ہے کہ زمین کھودیں اور سونے کے سکوں کا گھڑا نکل آئے، ایک آدمی بھاگتا ہوا لے جائے اور کہے کہ مجھے نہ پوچھیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بیرون ممالک بھیجی گئی رقم سابق صدر آصف علی زرداری یا ان کی بہن کی نہیں ہے تو اُنھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے تاہم عدالت اس معاملے کی تحققیات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو یہ حکم نہیں دے سکتی کہ وہ مزکورہ افراد کے خلاف کارروائی نہ کریں۔

جعلی بینک اکاونٹس سے متعلق سپریم کورٹ کے 7جنوری کے فیصلے میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے اور قومی احتساب بیورو کو ذمہ داروں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں جے آئی ٹی کو ہر دو ہفتوں کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کروانے اور دو ماہ میں رپورٹ مکمل کرنے کا حکم دیا تھا ۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آْئی کے افسر کو بھی شامل کرنے کا حکم دیا تھا ۔

منگل کو عدالت میں آصف علی زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے نظرثانی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں آئی ایس آئی کے افسر کو شامل کرکے اختیارات سے تجاوز کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو سول معاملات میں کیوں ملوث کیا جاتا ہے ۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ صرف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

سردار لطیف کھوسہ نے سوال اٹھایا اگر ایف آئی اے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کسی مقدمے کی تفتیش کرسکے تو ایسے ادارے کو پھر بند کر دینا چاہیے ۔

چیف جسٹس نے آصف زرداری کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت سپریم کورٹ کسی بھی ادارے کو تحقیقات کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تو ان کے موکل اس مقدمے میں ملزم بھی نامزد نہیں ہوئے تو پھر اُنھیں اتنی پریشانی کس بات کی ہے؟َ

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا زبانی حکم دیا تھا لیکن جب تحریری فیصلہ آیا تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا جو شواہد عدالت میں پیش کیے گئے تھے ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہی تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا تھا ۔

فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں تمام مقدمات اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ یہ تمام واقعات کراچی میں ہوئے ہیں اور تمام گواہان کا تعلق بھی کراچی سے ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ایک قومی ادارہ ہے اور وہ کہیں پر بھی اس کی تحقیقات کروا سکتا ہے۔

وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اگر نیب مقدمات اسلام آباد میں ہی سنے جانے ہیں تو باقی ملک میں قائم احتساب عدالتیں بند کر دی جائیں ۔

فریال تالپور کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا اقدام صوبائی خود مختاری میں مداخلت کرنے کے مترادف ہے اور اگرعدالت کا یہ موقف درست تسلیم کرلیا جائے تو ملک کے دیگر علاقوں میں احتساب عدالتوں کو ختم کرکے اسلام آباد میں ہی منتقل کردیا جائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب کے قانون میں یہ شق موجود ہے کہ جس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہو تو وہ اس مقدمے کی سماعت کہیں دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست دائر کرسکتا ہے۔

عدالت نے چار گھنٹے کی طویل سماعت کے بعد نظرثانی کی تمام درخواستیں مسترد کر دیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے