کالم

بابائے کرکٹ !

مارچ 8, 2019 9 min

بابائے کرکٹ !

Reading Time: 9 minutes

5 مارچ 2019 کو ابوظہبی میں پاکستان سپر لیگ کے ایک اہم میچ میں لاہور قلندرز کے 125 رنز کے تعاقب میں دوسرے اوور میں ہی جب کامران اکمل آئوٹ ہوا تو پشاور زلمی کے 44 سالہ مصباح الحق نے وکٹ پر کمان سنبھالی۔ پلک جھپکنے کے ہی دیر تھی کہ پشاور زلمی کی آدھی ٹیم 20 رنز پر ڈھیر ہو چکی تھی۔ مصباح کے لئے یہ صورتحال نئی نہ تھی۔ جب زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی نے مصباح الحق کو جوائین کیا تو اس کی ٹیم کو ہر اوور 8 رنز کی اوسط سے رنز بنانے تھے۔ دونوں کھلاڑیوں کا پہلا ٹاسک یہی تھا کہ ایک لمبی پارٹنر شپ نبھائی جائے۔ نویں اوور میں 18 سالہ لیگ سپن سینسیشن سندیپ کو پہلے دو گیندوں پر چھکے لگا کر مصباح نے اعلان کردیا کہ اب بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بہترین پلیننگ سے کھیلتے ہوئے اس جوڑی نے اہم فتح سمیٹ لی۔

اسی اننگز میں 44 برس اور 281 دن کی عمر میں مصباح الحق ٹی ٹونٹی کرکٹ میں نصف سنچری سکور کرنے والے معمر ترین کھلاڑی بن گئے۔
4 ستمبر 2002 کو کینیا میں کھیلے جانے والے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کی گلین مک گرا، گلسپی، بریٹ لی اور شین وارن پر مشتمل مضبوط باؤلنگ اٹیک کے سامنے صرف 24 رنز پر عمران نذیر، شعیب ملک اور یونس خان پویلین لوٹ چکے تھے۔ وکٹ پر آنے والا بلے باز 27 سال کا ناتجربہ کار کھلاڑی تھا۔ اس کے آتے ہی تجربہ کار سعید انور، اظہر محمود، عبدالرزاق اور شاہد آفریدی بھی کریز پر چھ اوورز بھی نہ ٹک پائے۔ یوں پاکستان کی 7 وکٹیں 47 رنز پر گر چکی تھیں اور ذلت آمیز شکست کا سامنا تھا۔ یہ جوان اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے پہلے راشد لطیف اور پھر کپتان وقار یونس کے ساتھ مل کر 64 رنز جوڑے۔ صبر و تحمل تو اس کی بیٹنگ میں جھلک ہی رہا تھا، مزید حیران اُس نے اس وقت اپنے کیریئر کے عروج پر دنیائے کرکٹ کے بہترین اسپنر شین وارن کو 2 بلند و بالا چھکے لگا کے کیا۔ پاکستان یہ میچ جیت تو نہ پایا پر میں اس نوجوان کی ہمت کا قائل ہو گیا۔ 27 سال کے جوان مصباح الحق سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔

مصباح الحق سے گفتگو کرتے ہوئے ۔ فوٹوگرافی: عاطف سبحانی

اگلا میچ جو فائنل تھا۔ وہی کہانی دہرائی گئی۔صرف 55 رنز پر 4 بلے باز آسٹریلوی باؤلنگ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے تھے۔ مصباح پھر وکٹ پر جم گیا اور اسکی نصف سنچری اور پارٹنرشپ کی بدولت پاکستان 227 رنز بنا گیا۔ بارش کی وجہ سے میچ مکمل نہ ہو پایا۔ پاکستان کی جانب سے بہترین پرفارمنس پر مصباح الحق کو مین آف دی سیریز ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لگا جیسے پاکستان کو ایک ایسا بیٹسمین مل گیا ہے جو ایک لمبے عرصے تک لیجنڈ جاوید میانداد کے جانے کے بعد ان کا رول پلے کر پائے گا۔ چند اور میچوں میں کھلانے کے بعد اس کو بھلا ہی دیا گیا۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن کئی برس اسی طرح ڈگمگاتی رہی پر اس کو موقع نہ مل پایا۔ مصباح ڈومیسٹک میں رنز کے انبار لگاتا رہا اور پاکستان اے ٹیم ٹورز میں بھی لیڈنگ سکورر رہا۔
بلاآخر قسمت کی دیوی مصباح پر پہلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2007 میں مہربان ہو گئی جب پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا کو اس کے علاوہ کوئی بگ ہٹر نہ نظر آیا۔ جب اس کا نام اناؤنس ہوا تو ایک شور مچ گیا۔ سینیئر بیٹسمین محمد یوسف نے تو حد ہی کردی کہ نوجوان کو موقع ہی دینا ہے تو 33 سال کے کھلاڑی کو ہی کیوں؟ سخت پریشر میں مصباح الحق نے ساؤتھ افریقہ کے میدانوں پر دنیا بھر کے ٹاپ باؤلرز کو نانی یاد کرا دی۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کا آرٹ بیٹنگ کرتے ہوئے یہ جانچنا ہے کہ کس باؤلر کو کس اوور میں ٹارگٹ کر کے مطلوبہ رن ریٹ حاصل یا سیٹ کرنا ہے۔ 20 اوورز میں 1 اوور بھی گیم کا نقشہ بدل دیتا ہے۔ روی شاستری تو یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ مصباح کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔

باسط سبحانی اور مصباح الحق ۔ فوٹوگرافی: عاطف سبحانی


24 ستمبر 2007 کو جوہانسبرگ میں پہلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان دونوں ملکوں کے میڈیا کے مطابق ٹاکرا لگا۔ انڈیا نے پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان کو 158 رنز کا ہدف دیا۔
پاکستان کی اننگز کے آغاز میں ہی محمد حفیظ اور کامران اکمل بالترتیب 1 اور بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئے۔ مصباح جب کریز پر آیا تو پاکستان کو 93 رنز درکار تھے 69 گیندوں پر۔ ابھی کپتان شعیب ملک کے ساتھ 9 رنز ہی جوڑے تھے کہ کپتان صاحب عرفان پٹھان کی گیند پر پل شارٹ کنٹرول نہ کر پائے اور کیچ آؤٹ ہو گئے۔ اب تالیوں کی گونج میں شاہد آفریدی اپنی باری لینے میدان میں موجود تھے۔حالات اس سٹیٹرجی کے متقاضی تھے کہ وہ مصباح کے ساتھ پارٹنرشپ لگانے کی کوشش کرتا لیکن لالہ ہوش سے ذیادہ جوش دکھا گیا۔ پہلی گیند کو ہی سٹیڈیم سے باہر بھیجنے کے چکر میں آؤٹ ہو گیا۔ سارے ایکسپرٹس کو یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان کا اب یہ میچ جیتنا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ اب کوئی مستند بلے باز بھی موجود نہ تھا۔ یاسر عرفات نے آکر مصباح کا اچھا ساتھ دیا لیکن عرفان پٹھان نے اپنے سپیل کی آخری گیند پر یاسر کی وکٹوں کو اڑا دیا۔ اب پاکستان کو 4 اوورز میں 54 رنز کا مشکل ترین ہدف درکار تھا۔ مصباح الحق نے پانچویں گیئر میں گیم ڈالتے ہوئے ہربھجن سنگھ کو ایک اوور میں 3 چھکے مار کر اپنی ٹیم اور قوم کو ایک نئی امید دلا دی۔ اگلے 2 اوورز میں 2 مزید وکٹوں کے نقصان پر 21 رنز جوڑے گئے۔ اب پاکستان کو پہلا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتنے کے لیے آخری اوور میں 13 رنز بنانے تھے اور آخری بلے باز وکٹ پر موجود تھے۔ انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے گیند گمنام جوگندر شرما کو تھما دی۔ دوسری گیند پر ہی مصباح نے شاندار چھکا جڑ دیا۔ اب 4 گیندوں پر 6 رنز ہی رہ گئے تھے۔ جوگندر نے تیز بھاگتے ہوئے تھوڑا آہستہ گیند ڈالا۔ مصباح جس سکوپ شارٹ پر بہت سارے رنز بنا چکا تھا اس بار جب اس نے بدقسمتی سے گیند کو ہٹ کیا تو ہوا میں کچھ دیر معلق رہنے کے بعد گیند سیدھی سرسانتھ کے ہاتھوں میں لینڈ کر گئی۔ یہاں سے ایک نیا آغاز ہوا مصباح کی آزمائش کا۔ کریڈٹ ملنے کے بجائے سارا مدعا اسی پر ڈال دیا گیا۔ مصباح نے بھی خاموش رہنے میں عافیت جانی۔
مصباح الحق نے کم از کم یہ ضرور ثابت کر دیا تھا کہ انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ہی موزوں ترین انتخاب ہے۔
ٹی ٹونی ورلڈ کپ کے بعد انڈیا کے دورے میں پاکستان کی جانب سے 3 ٹیسٹ میں سب سے زیادہ 464 رنز بنا کر اپنے آپ کو ورلڈ کلاس ٹیسٹ بیٹسمین بھی ثابت کر دیا۔ وہ انڈین کپتان انیل کمبلے کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ سخت بخار کے باوجود پورا دن کریز پر کھڑا رہ کر اس نے آنے والے وقت کی نوید سنا دی کہ وہ ہمت ہارنے والا نہیں!


وقت کہاں ایک سا رہتا ہے۔ 2 سال بعد پاکستان بیٹنگ لائن اپ کے لئے مسلسل کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد ایک سیریز میں واجبی پرفارمنس کے بعد ڈراپ کر دیا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف اس کے مداحوں کے لئے نہ سمجھ آنے والی تھی بلکہ اب تو مصباح بھی چیخ اٹھا کہ دل کرتا ہے اپنی کرکٹ کٹ جلا دوں!
اسی دوران 2010 میں پاکستان کرکٹ کی ایوانوں کو سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان اس سانحے میں کپتان سلمان بٹ اور دنیا کے ٹاپ فاسٹ باؤلرز محمد آصف اور محمد عامر کی سروسز سے کم ازکم 5 سالوں کے لئے محروم ہو چکا تھا۔ مارچ 2009 میں قذافی سٹیڈیم، لاہور کے نزدیک
ہونے والی دہشت گردی نے پہلے ہی پاکستان سے اپنی سرزمین پر ہونے والی کرکٹ کو چھین لیا تھا۔ یونس خان پی سی بی سے اختلافات کی وجہ سے پہلے ہی انکار کر چکے تھے۔ ایسے میں کپتانی کا قرعہ مصباح الحق کے نام نکل آیا۔
ٹیم میں واپسی پر مصباح کے لئے بہت چیلنجز تھے۔ ناتجربہ کار کھلاڑی، متحدہ عرب امارات کی اجنبی کنڈیشنز اور اپنی ذاتی پرفارمنس! پہلا امتحان بھی جنوبی افریقہ کے گریم اسمتھ، جیک کالس، ہاشم آملہ، اے بی ڈیویلئرز، مارک باؤچر، ڈیل اسٹین اور مورنے موکل جیسے ورلڈ کلاس پلیئرز پر مشتمل ٹیم کے خلاف تھا۔ پہلے ٹیسٹ میں جب ساؤتھ افریقہ نے پاکستان کو چوتھی اننگز میں 451 رنز کا ٹارگٹ دیا تو ماہرین کرکٹ پاکستان کی شکست یقینی قرار دے رہے تھے ایسے میں یونس خان کے ساتھ اظہر علی کے بعد کپتان مصباح نے خود چارج سنبھالا اور پورا دن کمال بیٹنگ کر کے گریم اسمتھ کا جیت کا سپنا توڑ ڈالا۔ یوں 12 نومبر 2010 کو دوبئی میں ساؤتھ افریقہ کے خلاف پاکستان کرکٹ کا مصباح الحق کی قیادت میں ایک نیا دور شروع ہوا۔
سیریز در سیریز ایسے شاندار پرفارمنس کا سلسلہ جاری رہا۔ یونس خان، محمد حفیظ، توفیق عمر، اظہر علی اور اسد شفیق کے ہمراہ مصباح الحق نے پاکستان کی بیٹنگ لائن لوہے کی دیوار کی مانند کر دی۔ کپتان نے سعید اجمل اور عبدالرحمن کو ایسی حکمت عملی سے باؤلنگ کروائی کہ بڑی بڑوں کو چکرا دیا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کو یو اے ای میں کلین سویپ تک کر دیا۔ اس بہترین مینیجمنٹ کے پیچھے مصباح الحق کی سالوں سال ڈومیسٹک کرکٹ اور پاکستان اے ٹیم کی کپتانی کا تجربہ، ان کی ایم بی اے ڈگری اور صابر طبیعت کا بڑا عمل دخل تھا۔ ایسے نہیں تھا کہ اس سارے عرصے کوئی امتحان نہیں آیا۔ ورلڈ کپ 2011 مصباح کی زندگی کو پھر سے ایک نئی ڈائریکشن دے گیا۔ پاکستان کی جانب سے 6 اننگز میں بیٹنگ کر کے سب سے زیادہ 248 رنز بنائے اور کئی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
30 مارچ 2011 کو موہالی کے گراؤنڈ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ورلڈ کپ سیمی فائنل کو کرکٹ مقابلوں کا باپ قرار دیا گیا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 260 رنز جوڑے۔ پاکستان کے پاس ایک سنہری موقع تھا۔ مصباح جب کریز پر آیا تو پاکستان کو 6 رنز فی اوور کی اوسط سے 158 رنز درکار تھے۔ ایک اوور بعد ہی یونس ڈرائیو مارتے ہوئے کیچ آؤٹ ہو گیا۔ مصباح نے حسب معمول ایک اینڈ سنبھال لیا اور دوسری طرف عمر اکمل نے اٹیکنگ شارٹس لگانے شروع کر دیئے۔ 29 رنز بنانے کے بعد عمر اکمل ہربھجن کی آرم بال کو نہ سمجھ پایا اور کلین بولڈ ہو گیا۔وکٹ سلو ہوتا جا رہا تھا اور آتے ہی بڑے سٹروک کھیلنا ممکن نہ تھا۔ پٹیل نے کنڈیشنز سمجھتے ہوئے عبدالرزاق کو سلو گیند کرا کر بولڈ کر دیا۔ اب سب نظریں کپتان شاہد خان آفریدی پر تھیں۔ 82 گیندوں پر 111 رنز حاصل کرنا تھے جب کہ صرف باؤلرز ہی بچے تھے اس جوڑے کے بعد!
ہر گزرتے اوور کے ساتھ
صورتحال گھمبیر ہوتی چلی جارہی تھی۔ آفریدی بیٹنگ پاور پلے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی 19 رنز بنانے کے بعد سکور تیزی سے آگے بڑھانے کے چکر میں پویلین لوٹ گیا۔ مصباح بھی ٹیل اینڈرز کے ہمراہ کوئی معجزہ نہ دکھا پایا اور انڈیا یہ معرکہ 29 رنز سے جیت گیا۔ پھر مصباح کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
مصباح الحق کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کپتان شاہد آفریدی کی بیٹیوں نے بھی ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "جب رنز ذیادہ اور بالیں کم بچیں تو مصباح الحق کو ‘ہوش’ آیا ۔۔۔” یہ کلپ پاکستان بھر میں وائرل ہو گیا۔ ہر دوسرے شخص کی زبان پر یہی ‘ایجنڈا’ تھا۔ خدا جانے یہ معصوم بچیوں کے ساتھ بیٹھے مصباح کے شدید ترین مخالف سپورٹس رپورٹر نے ‘پٹی’ پڑھائی یا پھر کوئی اور معاملہ تھا۔ اسے ٹک ٹک کے خطاب سے نوازا گیا۔ اب کے لگ رہا تھا کہ مصباح کے لئے کم ازکم ون ڈے کرکٹ جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کے اختلافات نے شدت اختیار کر لی جس کے نتیجے میں مصباح الحق کو تینوں فارمیٹس کا کپتان بنا دیا گیا۔ بطور بیٹسمین مصباح کی کارکردگی میں مذید نکھار آگیا۔ لیکن پھر ایک اور کیریئر میں دھچکہ لگا جب انگلستان کے خلاف ایک ٹی ٹونٹی میچ آخری اوور میں جیت نہ سکنے پر مصباح سے ٹی ٹونٹی کی کپتانی لے لی گئی اور ان کے نائب محمد حفیظ کو کپتان بنا دیا گیا۔ اس فیصلے نے ٹیم میں گروپنگ کو جنم دیا اور آگے چل کر ثابت ہوا کہ یہ ایک غلط قدم اٹھایا گیا تھا۔
ون ڈے کرکٹ میں پاکستان ٹیم کی جیت میں تسلسل نہ ہونے کی کئی وجوہات تھیں جیسے کہ اوپننگ جوڑے کا کلک نہ کرنا، عمر اکمل کا اپنے پوٹینشل پر پورا نہ اترنا، نمبر 7 پر لانگ ہینڈل استعمال کرنے والے بلے باز کی کمی اور وہاب، جنید، عرفان کا کسی نہ کسی وجہ سے اکٹھے کامیاب بالنگ اٹیک نہ بن پانا۔
ون ڈے کرکٹ میں ایسے نہیں کہ پاکستان کوئی کارنامہ نہیں انجام دے سکا بلکہ پہلی بار ساؤتھ افریقہ کو ان کے اپنے ہی گھر شکست دینے والا مصباح ایشیا کا پہلا کپتان بن گیا۔ ہندوستان کو بھی ان کے گھر ہرایا۔ ایشیا کپ بھی بنگلہ دیش میں جیتا۔ پہلا پاکستان سپر لیگ کا اسلام آباد یونائیٹڈ کو لیڈ کرتے ہوئے کپ بھی جیتا۔ ٹیسٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ کامیاب کپتان بنا۔ ہاں، مصباح الحق کو یقینا افسوس رہے گا کہ وہ اور اس کی ٹیسٹ ٹیم آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں اچھا پرفارم نہیں کر پائے۔
2015 ورلڈ کپ میں مصباح الحق نے بطور کپتان اور بیٹسمین بہت جان ماری۔ لڑتے لڑاتے اپنی ٹیم کو کوارٹر فائنل میں پہنچا دیا۔ لگ رہا تھا مصباح اکیلا ہی ورلڈ کپ جیتنے کے لیے سیریس تھا، کبھی پھر تفصیل سے ذکر ہو گا کہ کیا کچھ پکتا رہا آس دوران!
مصباح جس طرح ابھی فٹ ہیں کوشش کریں تو وہ مزید 2 سال بھی کھیل سکتے ہیں۔ کرکٹ سے ایسی بے مثال لگن اور کمٹ منٹ کو دیکھتے ہوئے اگر مصباح الحق کو "بابائے کرکٹ” کہا جائے تو غلط نہ ہوگا!


باسط سبحانی کلچر اور سپورٹس سے 1999 سے منسلک ہیں۔ انکے پروگرام آپ ان کے یوٹیوب چینل

www.youtube.com/BasitSubhani

سبسکرایب کر کے دیکھ سکتے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے