کالم

روزنامہ جنگ کی سنہری یادیں ۔ 3 عبدالحمید چھاپرا

مارچ 10, 2019 6 min

روزنامہ جنگ کی سنہری یادیں ۔ 3 عبدالحمید چھاپرا

Reading Time: 6 minutes

عبدالحمید چھاپرا بھی 1967 کی ہماری ٹیم کا اہم حصہ تھا۔ وہ پاکستان بھر میں صحافیوں کے ایک بزرگ لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس دور میں وہ کامرس رپورٹر اور حافظ صاحب کا ہونہار شاگرد تھا ، میمن ہونے کی بنا پر یہ بیٹ تجارت پیشہ برادری سے تعلق رکھنے کے لیے اس کی پسند کے عین مطابق تھی اور وہ تجارت برادری سے خبروں کے حصول کے لیے بہتر طور پر اپنے تعلقات بنا سکتا تھا۔ اس نے بہت جلد اس بیٹ میں
‎مہارت حاصل کر لی اور کراچی کی تاجر برادری اور ان کی پیشہ ور تنظیموں میں اپنا مقام بنا لیا۔وہ اچھا کامرس رپورٹر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی تنظیم کا اہم لیڈر بھی تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ طلبہ کی باہیں بازو کی جماعت این ایس ایف کا لیڈر بھی رہ چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں جنگ کے عملے میں شامل ہوا تو جس شخص کو میں نے سب سے زیادہ متحرک ، بلند آواز میں باتیں کرتے، تیزی کے ساتھ خبریں بناتے ،کے یو جے کے کام اور اس کی خبروں کی کاپیاں بناتے دیکھا،وہ یہی حمید چھاپرا تھا۔ میرے اس بھائی کی آج کل طبیعت ناساز ہے، وہ بہت کمزور ہو گیا ہے،میں وقفے وقفے سے فون کے ذریعہ اس کی خیریت معلوم کرتا رہتا ہوں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایمان کی سلامتی اور تندرستی کے ساتھ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے لیے ہر قسم کی آسانیاں پیدا کرے۔

‎نظریاتی اختلاف رائے کے باوجود ہمارے تعلقات ہمیشہ بہترین رہے۔ باہمی جملے بازی، ہلکی پھلکی تلخ نوائی اور چھوٹی موٹی سرحدی جھڑپوں کے ما سوا ہمارے درمیان کبھی کوئی بڑا مسئلہ یا اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ اس نے صحافتی تنظیم کےیو جے اور کراچی پریس کلب کی سیاست میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور صحافیوں کا سکہ بند لیڈر بن گیا۔ پی ایف یو جے اور کراچی پریس کلب کا مسلسل کہی بار صدر اور سیکریٹری جنرل منتخب ہوتا رہا اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منواتا رہا۔چھاپرا کی سب سے زیادہ اچھی بات یہ تھی کہ اس نے ہمیشہ سارے صحافیوں سے اچھے تعلقات رکھے اور نظریاتی مخالفوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔ اس کی اس سوچ سے اس کے ساتھیوں نے شدید اختلاف بھی کیا لیکن وہ اپنے انداز کے مطابق سیاسی چالیں چلتا رہا۔اور کامیاب رہا۔ اس کا اس کو بڑا سیاسی فائدہ ہوا۔ اس کی پی ایف یو جے اور کراچی پریس کلب کے اعلی عہدوں پر بار بار کامیابی اس کی اسی متوازن صلح کل پالیسی کا نتیجہ تھا۔ صحافیوں کے حقوق اور آزادی اظہار کی جدو جہد میں چھاپرا کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

‎چھاپرا بھائی نے پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں ائرماشل (ریٹائرڈ) اصغر خان کی سیاسی جماعت تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی اور1977 کے عام انتخابات میں حزب مخالف کی نو جماعتوں کے مشترکہ نمائندے کی حثیت سے حصہ بھی لیا اور وہ کراچی میں دلی کے کھانوں کے مشہور علاقے برنس روڈ سے سندھ اسمبلی کی نشست کا امید وار تھا ۔ لیکن یہ انتخابات پیپلز پارٹی کی انتخابات میںدھاندلی کے خلاف حزب اختلاف کی ملک گیر تحریک کی نذر ہو گئےاور ملک میں جنرل ضیاالحق کا مارشل لا لگ گیا۔جو گیارہ سال تک جاری رہا۔ اس وقت کی انتخابی مہم کے دوران نشتر پارک اور فریسکو چوک کے تاریخی جلسوں کی یادیں آج بھی سیاسی کارکنوں اور کراچی کے عوام کا ایک معتبر سیاسی حوالہ ہیں۔

عبدالحمید چھاپرا

‎کچھ عرصہ بعد چھاپرا نے جنگ کو خدا حافظ کہ دیا اور جنگ گروپ ہی کے شام کے ایک انگریزی اخبار
The Daily News
‎میں کام شروع کر دیا-تاہم وہ جنگ گروپ ہی کا حصہ رہا۔ اس کی وجہ جہاں اس کی اس کے ایڈیٹر واجد شمس الحسن سے ذہنی ہم آہنگی اور دوستی تھی،وہیں اس میں اردو صحافت سے انگریزی صحافت کی طرف جانے کی اس کی سوچ کا بھی دخل تھا اس میں بھی وہ کامیاب رہا۔ وہ خبروں کے ساتھ انگریزی میں مضامین اور شہر کی روز مرہ کی سر گرمیوں کی ڈائری بھی لکھنے لگا۔اس تبدیلی کا اسے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اب اس کو اپنی سیاست اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے لیے زیادہ وقت ملنے لگا، اس نے اس وقت کو صحافیوں کی جدوجہد کے لیے خوب استعمال کیا۔ اس دوران بھی ہمارے یہ تعلقات پہلے دن کی طرح دوستانہ اور بھائیوں کی طرح رہے لیکن ہمارا باہمی تعلق اس وقت مزید پختہ ہو گئے،جب ہم دونوں کے مکان گلشن اقبال کی صحافی سوسائٹی میں تعمیر ہو گئے اور ہم ایک دوسرے کے پڑوسی بن گئے۔ اس طرح ہمیں ایک دوسرے کو قریب سے پرکھنے اور سمجھنے کا زیادہ موقع ملا۔

‎اس موقع پر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ چھاپرا سے وابستہ چند ایسی اچھی باتوں کا ذکر کروں جس کی وجہ سے میرے دل میں چھاپرا بھائی کے لیےہمیشہ احترام کے جذبات کا اضافہ ہوا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ان باتوں کے انکشاف پر چھاپرا بھائی کا کیا رد عمل ہو گا، لیکن میں چھاپرا کی زندگی کے اس روشن رخ کو ضرور بیان کرنا چاہوں گا۔

‎شائد کم ہی دوستوں کو علم ہو کہ چھاپرا کے والدین کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا اوروہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں ( چھ بھائی اور دو بہنوں ) میں سب سے بڑا تھا۔مالی حالات بھی کچھ اچھے نہیں تھے اس طرح بہت ہی کم عمری میں ان سب چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔اس بڑی بھاری ذمہ داری کو اس نے ہر قسم کی محنت مزدوری کے کام کر کے پورا کیا۔ سارے بہن بھائیوں کو بھی تعلیم دلائی اور خود بھی یونیورسٹی سے ماسٹرز تک تعلیم مکمل کی۔اس طرح اس نے اپنے بہن بھائیوں کو ماں اور باپ بن کر پالا پوسا،اعلی تعلیم دلائی اور انہیں مختلف کاروبار کرائے۔ اللہ تعالی نے ان سب کو بہت نوازا۔ یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ ایک وقت ہر ایک بھائی نے کوشش کی کہ بڑے بھائی کو اپنے اپنے کاروبار میں شراکت دار بنائے لیکن چھاپرا بھائی نے ان میں سے کسی کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔اور کہا کہ مجھے اللہ نے بہت نوازا ہے مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

‎اس کو اپنے بہن بھائیوں سے کس قدر محبت ہے اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ کوئی تیس سال قبل اس کے سب سے چھوٹے بھائی کے گردے اچانک ناکارہ ہو گئے اس خبر سے پورے خاندان مین کہرام مچ گیا ایس آئی یو ٹی میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو دکھایا گیا جنہوں نے ٹرانس پلانٹیشن کا مشورہ دیا اور کہا صرف بھائی بہن ہی میں سے کوئی گردے کا عطیہ کر سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی قربانی کا مرحلہ تھا چھوٹے بھائی کی جان کو خطرہ تھا ہر ایک گردہ دینے کو تیار تھا لیکن اس موقع پر ایک بار پھر حمید چھاپرا سب سے آگے تھا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے سامنے ٹرانسپلانٹ کیلیے اپنا گردہ دینے کی پیشکش کی اور اپنا گردہ عطیہ کر دیا گیا۔اور گردے کی کر دی گئی۔

‎ آخری بات کا تعلق صحافی سوسائٹی گلشن اقبال کی جامعہ مسجد بلال کی تعمیر سے ہے۔اس سوسائٹی میں جب ہم نے مسجد بلال کی تعمیر کا ارادہ کیا تو مسجد کمیٹی کے سیکریٹری کی حثیت سے مجھے علم تھا کہ ہمارے پاس صرف 55 ہزار روپے موجود ہیں۔اس کے باوجود ہم نے محض اللہ کے بھروسے پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری تجویز پر مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کے لیے مفتی اعظم پاکستان مولانا رفیع عثمانی، مولانا مفتی ظفر نعمانی،مولانا ظفر احمد انصاری اور مولانا عبد الرحمن سلفی سمیت تمام مکاتب فکر کے دوسرے علما کرام اور ممتاز تاجروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایک طرح سے یہ مسجد کی تعمیر کیلیے فنڈ ریزنگ کی تقریب تھی۔ جس کے اہتمام اور اخراجات میری تحریک پر میرے دوست اور اس وقت کے کیٹرنگ کنگ حنیف راجپوت نے برداشت کیے ۔ جب میں نے تاجروں اور محفل کے شرکا سے مسجد کی تعمیر کیلیے مالی تعاون کی اپیل کی تو چھاپرا بھائی نے سب سے پہلے غیر متوقع طور پر دو لاکھ پچاس ہزار روپے کے عطیہ کا اعلان کر کے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ایشیا سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگانے والے چھاپرا کا یہ بلکل نیا رخ تھا جس نے نا صرف مجھے بلکہ محفل کے بہت سے شرکا کو بھی متاثر کیا تھا-یہ مسجد 1990 میں اڑھائی کروڑ کی لاگت سے مکمل ہوئی تھی۔ یہ گلشن اقبال کی چند بڑی اور خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے جس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا میں اب بھی اعزازی سربراہ ہوں۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے عارف الحق عارف نے 1967 میں روزنامہ جنگ کراچی سے صحافت کا آغاز کیا،جہاں 2002 تک وابستہ رہے،اسی سال جیو ٹی وی سے وابستہ ہوئے جہاں بطور ڈائریکٹر 18 سال سے زائد عرصہ گزارا، عارف الحق عارف کی صحافت سے 52 سالہ وابستگی کا یہ سفر بڑا دلچسپ ہے،پاکستان 24 میں “ بڑے لوگوں کی سنہری یادیں “ کے اس تحریری سلسلے میں آپ کو نامور لوگوں کی متاثر کن کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔امید ہے قارئین کے لیے یہ سلسلہ دلچسپ ہوگا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے