کالم

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں ۔ یوسف صدیقی

مارچ 21, 2019 5 min

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں ۔ یوسف صدیقی

Reading Time: 5 minutes

مجھے آج بھی 16 اپریل 1967 کی وہ شام اچھی طرح یاد ہے۔جب مجھے روزنامہ جنگ میں اپرنٹس سب ایڈیٹر کی حثیت سے پروانہ تقرری ملا اور سب سے پہلے اس کے ایگزیکٹو ایڈیٹر یوسف صدیقی کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔اس دن میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا اس لئے کہ اخبار نویس بننے کے میرے خواب کو ایک عرصے کے بعد عملی تعبیر ملی تھی، اور وہ بھی ایک ایسے اخبار میں، جو پاکستان کا سب سے بڑا اخبار تھا اور جس کے ادارتی عملے میں شمولیت کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ یوسف صدیقی صاحب سے میں ایک بار پہلے مل چکا تھا اور انہیں ملازمت کےلیے درخواست دی تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے میری قابلیت کو جانچنے کیلیے لندن کے ایک انگریزی اخبار کے آرٹیکل کا ترجمہ کرا کر میرا امتحان بھی لیا تھا۔ انہوں نے یہ آرٹیکل دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ “ دو چار دن میں اس کا ترجمہ کر کے مجھے دکھاؤ”۔اور یہ بھی کہ “ترجمہ کرتے وقت ڈکشنری سے مدد ضرور لینا لیکن کسی اور سے ترجمہ مت کرانا”تیسرے ہی دن میں نے ترجمہ کر کے ان کو دے دیا،جسے انہوں نے غور سے پڑھا اور پسند کیا اور کہا تھا کہ جب سب ایڈیٹر ز کی ضرورت ہو گی تو اطلاع کر دی جائے گی۔ اس وقت میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں سال اوّل کا طالب علم تھا۔

جنگ میں ملازمت کی درخواست دیئے کہی مہینے ہو گئے تھے۔اور میں تقریباً” مایوس ہو چکا تھا کہ 16 اپریل کی ایک خوشگوار شام کو یہ مایوسی اچانک خوشی میں بدل گئی اور جنگ میں مجھے ملازمت مل گئی۔مجھے اس کی اطلاع کیسے ہوئی اور میں دفتر کیسے پہنچا ؟ اس کی روداد بڑی دلچسپ ہے۔ میری درخواست پر رابطے کا نمبر امیر جماعت اسلامی کراچی چودھدری غلام محمد کے دفتر کا تھا۔جنگ کے دفتر سے اس نمبر پر مجھے دفتر آنے کیلئے کہا گیا تو چودھدری صاحب نے اپنے دفتر سے راجب علی شیخ کو مجھے جنگ کے دفتر پہنچانے کی ہدائت کی۔ وہ میرے پڑوسی تھے اور مجھے جانتے بھی تھے۔ میں پرانی نمائش کے قریب بی ہائنڈ جیکب لائنز میں اپنے کوارٹر کے قریب نظامی روڈ پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ اچانک ایک رکشہ رکا اور اس میں سے ایک گرج دار آواز گونجی“ او لڑکے،چپ چاپ رکشے میں بیٹھ جاؤ “ میں انہیں پہنچان گیا۔ اس لیے کسی خوف کے بغیر رکشا میں بیٹھ گیا اور رکشا چل پڑا۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ شیخ صاحب مجھے کہاں لے جارہے ہیں ، ان کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا اس لیے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ رکشا جنگ کے دفتر کے سامنے رکا تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ انہوں نے مجھے یوسف صدیقی سے ملنے کی ہدائت کی اور چلے گئے۔اس طرح مجھے بر وقت اطلاع مل گئی اور میں دفتر پہنچ گیا۔ اس سے ایک دن قبل کراچی سے روزنامہ مشرق کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا اور جنگ میں صفحات میں اضافہ کیا گیا تو مزید عملہ رکھنے کی گنجائش پیدا ہوئی تھی۔ چنانچہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے ہم چار طلبہ کو اپرنٹس سب ایڈیٹر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جن میں میرے علاوہ قمر عباس جعفری ( اب وائس آف امریکہ )، مرحوم فیض اللہ بیگ اور مرحوم ظہیر ریاض شامل تھے۔ یوسف صدیقی صاحب نے مجھے نیوز روم میں ڈسٹرکٹ اور سٹی پیج کے انچارج کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ “ یہ بچہ آپ کی شفٹ میں کام کرے گا اس کو کام سکھایئے یہ جلد سیکھ جا ئے گا میں اس کا امتحان لے چکا ہوں۔” ان کے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ انچارج کا نام سید ظفر رضوی اور ان کے ساتھ رشید بٹ ہیں جو بعد میں میرے ابتدائی استاد بنے اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی صحافت اور زندگی کے مختلف پہلووں اور یادوں کا ذکر بعد میں آئے گا۔

یوسف صدیقی

یوسف صدیقی کا شمار قیام پاکستان سے پہلے ہی اس وقت کے بڑے بڑے کُنّہ مشق اور تجربہ کار ایڈیٹروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے یہ مقام مسلسل محنت اور صحافت کے پیشے سے گہرے لگاؤ کی وجہ سے کم عمری ہی میں حاصل کر لیا تھا۔ بچپن ہی سے ان کا رجحان صحافت کی طرف تھا اور گریجوایشن کے بعد وطن اخبار میں کام شروع کر دیا تھا،جس کا مالک ایک ہندو تھا اور بقول سید محمد تقی،یہ تن تنہا اس کے رپورٹر،سب ایڈیٹر،نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر تھے۔اور اس طرح تجربہ کار اخبار نویس بن چکے تھے، ان کی میر صاحب اور سید محمد تقی سے دوستی تھی۔ تقی صاحب پہلے سے جنگ میں تھے۔ اب انہیں بھی جنگ کے ادارتی عملے میں شامل کر لیا گیا۔ان کا ذکر میں چودھدری غلام محمد سے بہت سن چکا تھا۔ کہ وہ کس پائے کے صحافی اور بہت اچھے انسان ہیں اس لیے میں نے کوشش کی کہ ان سے بھی زیادہ سے زیادہ سیکھ سکوں۔ میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ جنگ میں ملازمت کے سلسلے میرا سب سے پہلے رابطہ ان ہی سے ہوا تھا اس کے بعد تو ان سے میرا رشتہ ایک شاگرد اور استاد کا نہیں بلکہ باپ اور بیٹے جیسا ہو گیا۔جو 1978 میں ان کے انتقال تک قائم رہا۔ انہوں نے اس ہر ہر موقع پر ہمیشہ میری رہنمائی اور سر پرستی کی اور صحافت کے اسرار و رموز سمجھائے۔ وہ بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے اور حدود و قیود اور حفظ و مراتب کا بڑا خیال رکھتے تھے-&ان کامعمول تھا کہ روزانہ صبح ٹھیک 9 بجے شیروانی یا صاف ستھرے کرتےشلوار میں ملبوس دفتر میں داخل ہوتے۔ اس سے پہلے وہ دفتر کے باہر میکلوڈ روڈ (موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ) پر کلو پان والے کی دکان سے دن بھر کے لئے پان کا کو ٹہ لیتے اور ٹھیک 9 بجے اپنے کمرے میں آتے ہی اسے اندر سے لاک کر دیتے۔ کسی کو 11 بجے تک ان کے پاس آنے کی اجازت نا تھی۔ وہ دفتر میں آتے ہی تمام اخبارات کا مطالعہ کرتے، پھر ایڈیٹر کے نام قارئین کے خطوط پڑھتے اور اہم خطوط کو مراسلوں میں تبدیل کرتے یا اگر عوامی مسائل سے متعلق کوئی خط نا ہوتا تو کسی بھی نام سے خود مراسلہ لکھتے اور کتابت کے لئے بھیج دیتے، اس کے بعد اگر اداریہ لکھنے کی باری ان کی ہوتی تو اداریہ یا ضمنی نوٹ لکھتے۔ اس زمانے میں ادارتی صفحے پر دو چار کالم یا مضمون شائع ہوتے تھے، آج کل کی طرح کالموں کی بھر مار نہیں تھی-ہر روز مستقل چھپنے والا کالم صرف ابراہیم جلیس کا “وغیرہ وغیرہ “ تھا اسکے علاوہ اگر کوئی کالم اور مضمون موجود نا ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں سجاد اور حماد کی مناسبت سے ابو سجاد اور ابو سجاد کے نام سے کسی بھی موضوع پر کالم لکھتے۔اور یہ سب کچھ ایک ہی نشست میں ایسی روانی سے لکھتے کہ ان کی تحریر میں کاٹے کا کوئی ایک نشان بھی نا ملتا۔اس سے ان کے حالات حاضرہ پر پختہ گرفت اور تجربہ کار ایڈیٹر اور کالم نگار ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ سارے کام وہ 11 بجے تک مکمل کر لیتے اور دفتر سے باہر آجاتے۔اب ان کا موڈ نہائت دوستانہ ہو جاتا اور دوسرے ادارتی اور دوسرے عملے کے ساتھ گھل مل جاتے اوران کے ساتھ ہنسی مذاق کی محفل جما لیتے۔

جاری ہے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے