پاکستان

مشرف کیس میں آج کیا ہوا؟

مارچ 25, 2019 4 min

مشرف کیس میں آج کیا ہوا؟

Reading Time: 4 minutes

عابد علی + رضوان عارف

سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس جلد نمٹانے کی درخواست کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا ٹرائل ہر صورت ہوگا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کو جس طرح ڈیل کیا گیا وہ تاریخ کا ایک نیا باب ہے، کبھی عدالت جاتے ہوئے گاڑی کہیں اور موڑ لی جاتی ہے اور کبھی ہسپتال سے سرٹیفیکیٹ آ جاتا ۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے آئندہ سماعت پر بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق فیصلہ کرنا ہے اورمقدمہ کے فریقین متفق ہیں کہ ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے، اگرٹرائل کورٹ کسی نتیجہ پر نہ پہنچی تو یکم اپریل کو فیصلہ کرینگے اور اس دوران پرویزمشرف کے وکیل اپنے موکل سے پیشی کے متعلق ہدایات لیں ۔

عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے سنگین غداری کیس ٹرائل میں پیش رفت نہ ہونے پر دائر درخواستوں کی سماعت کی تو عدالت نے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں عدم پیشی پر برہمی ظاہر کی ۔

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ملک میں تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا ٹرائل ہر صورت ہوگااس کیس کو جس طرح ڈیل کیا گیا وہ تاریخ کا ایک نیا باب ہے، عدالت جاتے ہوئے گاڑی کہیں اور موڑ لی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کبھی اسپتال چلے جاتے ہیں کھبی بیرون ملک ملزم کی مرضی نہیں چلے گی، عدالت کے پاس انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرٹیکل 187 کا خصوصی اخیتار ہے، پرویز مشرف ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں یا اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نہیں آتے تو ٹرائل کورٹ اپنی کارروائی مکمل کرے، کتنے لوگ علاج کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کی وجہ سے دوسروں کے کیس پر اثر پڑتا ہے۔ پرویز مشرف بڑے مکے دکھاتے تھے وہ کہیں عدالت کو مکے دکھانا نہ شروع کردیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ بہتر ہے عدالت کے سوالوں کا جواب ان کا وکیل دے دیں۔ اس دوران درخواست گزار نے کہاکہ عدالت کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ ملزم کا اسکائپ پر بیان ریکارڈ نہیں ہوسکتا، پرویز مشرف کا سیاسی کیرئیر ختم ہوگیا ہے، پرویز مشرف علیل ہیں۔۔عدالت پیش نہیں ہوسکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف اس قابل ہیں کہ عدالت پیش ہوسکیں، وہ پاک انڈیا ٹینشن کے دوران بڑے اچھے بیانات دیتے رہے ہیں ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی ملزم عدالت کو یرغمال یا ہائی جیک نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں جانب کے وکلاء عدالتی وقفے کے بعد معاملے کا حل بتائیں، برطانوی پارلیمنٹ نے آمر کرامویل کا موت کے بعد ٹرائل کیا، برطانوی پارلیمنٹ نے کرامویل کا ڈھانچہ قبر سے نکال کر غداری کے مقدمے میں ٹرائل کرکے فیصلہ دیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو استغاثہ کے وکیل نصیرالدین نیئر کاکہنا تھا کہ مشرف کا بیان لینے کے حوالے سے عدالت کے سامنے ایک آپشن کمیشن کے قیام کا بھی ہے،۔
چیف جسٹس نے کاکہ کمیشن سے اجتناب کرنا بہت آسان ہے، کمیشن سے پہلے مشرف ہسپتال پہنچ جائیں گے اورڈاکٹرز نے کمیشن کو مشرف سے ملنے بھی نہیں دینا۔ سکائپ کا طریقہ سب سے بہترین ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ مشرف ہسپتال کے بستر سے بھی بیان ریکارڈ کروا سکتے ہیں ۔

اس دوران پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بنچ بھی اس وقت ٹوٹ گیا جب بینچ کے ایک رکن جسٹس یحیی آفریدی نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جسٹس یحیی آفریدی خصوصی عدالت کی سربراہی کر چکے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے آج فیصلہ نہیں کرنا تھا اس لیے جج صاحب بنچ کا حصہ رہے ۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ آئندہ سماعت پر جسٹس یحیی آفریدی بنچ کا حصہ نہیں ہوں گے ۔

چیف جسٹس نے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی تاریخ کافیصلہ کرتے ہوئے سوال کیاکہ کیا کسی فریق کو یکم اپریل سے کوئی مسئلہ ہے؟ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یکم اپریل سے کوئی مسئلہ نہیں، ہمارے لیے ہر دن اللہ کا مبارک دن ہے،انگریزوں کا دور عرصہ پہلے ختم ہو چکا ۔

وکلا نے کہاکہ انہیں یکم اپریل کو سماعت کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ٹرائل کورٹ آئندہ سماعت پر فیصلہ نہ کر سکی تو ہم کریں گے ۔

پرویز مشرف کے وکیل نے کہاکہ مشرف کیخلاف شکایت کا نمبر 13 ہے جو بدقسمت نمبر سمجھا جاتا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جی او آر لاہور میں مکان نمبر 12 کے بعد 12A اور پھر 14 ہے، انگریزوں کے بنائے گھروں میں بھی 13 کا ہندسہ نہیں ۔

اس دوران مشرف کے وکیل نے برطانوی ڈکٹیٹر سے متعلق ریمارکس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت کہتی ہے مشرف نہ آئے تو میرا بیان ریکارڈ ہوگا، ایسا نہ ہو عدالت میرے ڈھانچے کو پھانسی پر چڑھا دے۔

جس پر چیف جسٹس نے برجستہ جواب دیا کہ فکر نہ کریں انصاف اندھا ہو سکتا ہے ججز نہیں۔

صحافی رضوان عارف کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کیس میں مزید التوا دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 342 کا بیان قلمبند کرانے کے لئے سکائپ کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا کہ آئندہ سماعت پر جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ کا حصہ نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 28 مارچ کو خصوصی عدالت میں آئین شکنی سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر ہے، خصوصی عدالت نے یہ طے کرنا ہے کہ ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ خصوصی عدالت کے اختیارات کو سلب نہیں کرنا چاہتی،اگر خصوصی عدالت سے معاملے کا حل نہ نکلا تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے میں التواء نہیں کریں گے،ملزم کا 342 کا بیان قلمبند کرانے کے حوالے سے اسکائپ کا آپشن موجود ہے۔ کسی بھی مقدمے میں ملزم کو یہ آپشن نہیں دے سکتے کہ اس کی مرضی سے ٹرائل چلے۔
سماعت کے آغاز پر خصوصی عدالت کے رجسٹرار نے سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے ٹرائل سے متعلق رپورٹ جمع کرادی۔


دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل نے ان کے موکل کا بیان اسکائپ کے ذریعے قلمبند کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسکائپ کے ذریعے غیر ملکی شخص ہونے کی صورت میں بیان قلمبند کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف علیل ہیں۔ 342 کا بیان ملزم کی غیر موجودگی میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت نے کیس کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کردی۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے