پاکستان24 متفرق خبریں

نواز شریف کو ضمانت کیسے ملی؟

مارچ 26, 2019 6 min

نواز شریف کو ضمانت کیسے ملی؟

Reading Time: 6 minutes

سپریم کورٹ ڈائری

سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کی سماعت دن سوا دس بجے شروع ہوئی ۔ ان کے مقدمے سے قبل صرف تین کیس سنے گئے ۔

عدالت عظمی کے کمرہ نمبر ایک میں منگل کو کل چار مقدمات سماعت کے لیے مقرر تھے ۔

نواز شریف کی درخواست کی گذشتہ منگل کو ہونے والی سماعت کے دن بھی کمرہ عدالت نمبر ایک میں کل چار مقدمات سنے گئے تھے اور آخری کیس سابق وزیراعظم کا تھا ۔ اس روز تو فیصلہ نہ ہو سکا مگر اس منگل کو عدالت کا رخ کرنے والے مسلم لیگی مایوس نہ لوٹے ۔


سوا دس بجے سماعت کا آغاز ہوا تو نیب کے پراسیکیوٹر اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے ۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ہدایت کی کہ خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں ۔

 وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے جواب میں لندن سے ڈاکٹر لارنس نے جوابی خط لکھا ہے۔ وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر لارنس کے مطابق نواز شریف کو علاج کی ضرورت ہے ۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص کو دوسرے کو ذاتی حیثیت میں لکھا گیا خط ہے، اس کو ثبوت کیسے مان لیں؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟۔
وکیل نے بتایا کہ عدالت کے سامنے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کا خلاصہ بنا کر پیش کیا ہے، ان کو ذیابیطس، ہائپرٹینشن اور دل کی تکلیف ہے، صحت مرحلہ وار گر رہی ہے ۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا صرف ایک حوالہ ڈاکٹر لارنس کا خط ہے، اس کو کیسے تسلیم کر لیں؟

وکیل نے کہا کہ کوئی ایک وجہ نہیں کہ اس خط کو تسلیم نہ کیا جائے، دفترخارجہ کے ذریعے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت مانگ رہے ہیں اور شواہد میں صرف ایک خط سامنے لا رہے ہیں۔ ‘ہمیں کیا پتہ ڈاکٹر عدنان کون ہے؟ڈاکٹر لارنس کون ہے؟ یہ وجود بھی رکھتا ہے یا نہیں۔’

انہوں نے کہا کہ فوجداری مقدمے میں ایک خط پر کیسے فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟۔


چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل سے کہا کہ پاکستان کے کسی ڈاکٹر کی رپورٹ یا میڈیکل بورڈ کے ریکارڈسے دکھائیں کہ سابق وزیراعظم کی صحت گر رہی ہے۔ ‘درخواست گزار تو پندرہ سترہ سال سے ان بیماریوں کا شکار ہے اور تمام مصروفیات بھی جاری رکھیں۔’


وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا مزید علاج کیا جائے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ‘یہ زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی صورتحال ہے،ہم اس خط پر شک نہیں کر سکتے۔’


چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ میں کسی خطرے کی جانب اشارہ نہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ ‘مریض اپنی ادویات جاری رکھے۔’


چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق نواز شریف کو سنہ 2003 سے دل کی تکلیف ہے۔ ‘عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا بیماری سے زندگی کو خطرہ تو لاحق نہیں، قانون کے مطابق صرف اسی وقت ضمانت مل سکتی ہے جب خطرناک بیماری کا جیل میں علاج ممکن نہ ہو۔’

وکیل نے کہا کہ نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کہاوت ہے کہ اوپن ہارٹ سرجری کرانے والے کی عمر 20 سال کم ہو جاتی ہے۔ 

چیف جسٹس کے جملے پر عدالت میں ہنسی گونجی ۔ وکیل خواجہ حارث کھسیانے سے ہوگئے اور پھر سنبھل کر بولے کہ ضروری نہیں اس مقدمےمیں بھی ایسا ہو ۔


چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ جیل میں درخواست گزار کی صحت کس حد تک خراب ہوئی ہے اور ان کی زندگی کو کس قدر خطرہ لاحق ہے۔

 وکیل نے بتایا کہ نواز شریف کی انجیوگرافی میں صورتحال واضح ہوگی مگر اس دوران دیگر بیماریوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی تاکہ وہ کوئی خطرہ نہ بن سکیں ۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پاکستان کے کسی ہسپتال میں ایسے آلات موجود نہیں یا ڈاکٹر اتنی اہلیت نہیں رکھتے کہ ان کو علاج کر سکیں؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں کسی بھی ہسپتال سے علاج کرانے کا حکم دے سکتے ہیں۔


خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سٹریس یا دباؤ کی وجہ سے امراض کا علاج ممکن نہیں۔ وکیل نے کہا کہ نواز شریف کے علاج کے لیے ذہنی و جسمانی دباؤ سے آزاد ہونا ضروری ہے جو ضمانت کے بغیر ممکن نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ کیا یہ سٹریس دو ہفتوں میں ختم ہو سکتا ہے؟ ‘اگر ہم ہائیکورٹ کو کہیں کہ وہ آپ کی مرکزی اپیل کی سماعت کر کے فیصلہ کر لے۔’

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ یہاں مقدمہ زیادہ اہم نوعیت کا ہے کیونکہ ضمانت کے لیے آئے ہیں، ہائیکورٹ میں مرکزی اپیل کی سماعت کے لیے 9 اپریل کی تاریخ مقرر کی جا چکی ہے ۔ 


 چیف جسٹس نے کہا کہ جب وہاں مرکزی اپیل سنی جانی ہے تو ضمانت کی اس درخواست کو سنے جانے کا کیا فائدہ ہے؟۔


وکیل نے پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم کی طبی بنیادوں پر رہائی اور علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی مثال دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ‘وہ مختلف مقدمہ تھا، ڈاکٹر عاصم سزایافتہ نہ تھے۔’

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ویسے بھی اس رعایت کا اتنا غلط استعمال کیا گیا ہے کہ اب اعتماد کا فقدان ہے۔ ‘ہم نے بطور قوم یہ سب کیا ہے۔’


وکیل خواجہ حارث نے ایک بار پھر مریض کے سٹریس کا ذکر کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہر قیدی چاہتا ہے کہ اس کے سٹریس کو ختم کیا جائے، جن کا ٹرائل ہو تا ہے وہ بھی سٹریس میں ہوتے ہیں بلکہ ٹرائل نہ بھی ہو تو سٹریس رہتا ہے۔’  چیف جسٹس نے کہاکہ ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح کا سٹریس ہے۔

چیف جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اکیسویں صدی میں تو اصل پرابلم ہی سٹریس ہے۔


قومی احتساب بیورو نیب کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار نواز شریف کو جیل میں 24گھنٹے ڈاکٹروں کی نگرانی میں رکھا گیا ہے اور اس کے لیے پنجاب حکومت نے خصوصی انتظامات کیے ہیں ۔ 

انہوں نے عدالت میں پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ’ 18فروری کے بعد قیدی کو مسلسل طبی سہولیات کے لیے نگرانی میسر ہے۔’

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب  اربوں روپے برآمد کرنے کے دعوے کرتا ہے، ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہی بنا دیں۔ ‘آپ کے سارے ملزم بیمار ہو جاتے ہیں۔ آپ کے ہر کیس میں یہ مسئلہ آجاتا ہے۔ یا تو آپ سٹریس زیادہ دیتے ہیں۔’

چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو لوگ خودکشیاں بھی کرنے لگے ہیں، اس کو بھی ہم دیکھ رہے ہیں ۔ 

خیال رہے کہ وفاقی ترقیاتی ادارے کے ایک سابق افسر اسد منیر نے نیب کی جانب سے ریفرنس فائل کرنے کے فیصلے کے بعد خودکشی کر لی تھی ۔ انہوں نے موت سے قبل چیف جسٹس کے نام نیب کے خلاف خط بھی لکھا تھا ۔ 


نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں میڈیکل رپورٹس کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ‘ان میں سب کچھ نارمل ہے۔’
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے عدالت کا کام بلڈ پریشر چیک کرنا ہے، جو میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں لکھا ہوگا ہم مانیں گے۔ قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے ۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب پراسیکیوٹرکے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت سے استدعا کی کہ ‘آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی جائے تاکہ علاج کراسکیں ، دوبارہ جیل چلے جائیں گے۔’

وکیل نے کہا کہ اس میں کیا غلط ہے کہ اگر ضمانت پر باہر آ کر درخواست گزار علاج کرا لیتے ہیں؟۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت خود ضمانت کا دورانیہ طے کر سکتی ہے ۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے فورا کہا کہ ‘آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت کی استدعا مناسب لگتی ہے۔’

چیف جسٹس نے فورا کہا کہ ‘ہم کچھ دیر میں آ کر فیصلہ سناتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے پہلے ڈیڑھ بجے کا وقت دیا، پھر کہا کہ ایک بج کر پندرہ منٹ تک واپس آ کر مشاورت سے فیصلہ سنایا جائے گا ۔

عدالت نے بارہ بج کر پچاس منٹ پر فیصلہ محفوظ کر لیا ۔

رپورٹرز بریکنگ نیوز دینے باہر کو بھاگے اور مسلم لیگ ن کے رہنما عدالت کے اندر ہی انتظار کرنے لگے ۔ایک بج کر پچاس منٹ پر فیصلے سنانے کے لیے ججوں کی آمد ہوئی ۔ 

چیف جسٹس آصف کھوسہ نے نشست پر بیٹھتے ہوئے کہا کہ ’اس آرڈر کے چند نکات ہیں ۔‘

چیف جسٹس نے فیصلہ سنانا شروع کیا اور جیسے ہی کہا کہ ‘سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کی جاتی ہے‘۔ تو عدالت میں شور بلند ہوا، ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافی خبر دینے کے لیے دروازے کی جانب بھاگے ۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ سائلنس پلیز ۔ ابھی مزید نکات بھی ہیں ۔ 

عدالت نے تین منٹ میں فیصلہ سنایا تو مسلم لیگ رہنما ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے باہر نکلنے لگے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے