کالم

معاشی مسائل کا حل اتنا مشکل نہیں

اپریل 24, 2019 6 min

معاشی مسائل کا حل اتنا مشکل نہیں

Reading Time: 6 minutes

اب، جبکہ موجودہ حکومت نے حقائق کا ادراک کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے اندر تبدیلیوں کا ایک عمل شروع کر دیا ہے، مناسب ہے کہ مسائل کے حل کی بات کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کے اس عمل میں سب سے اہم تبدیلی خانصاحب کو اپنے مائینڈ سیٹ کی کرنی ہو گی، ورنہ خدشہ ہے کہ وہ آئندہ سالوں میں بھی کچھ ڈیلیور نہ کر پائیں گے۔ میں مسائل کا جو حل ممکن سمجھتا ہوں وہ شئیر کئے دیتا ہوں۔ 

١۔ معاشی مسئلہ
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے۔ ہماری معیشت دستاویزی نہیں ہے۔ زیادہ تر گرے اکانومی ہے۔ اصل آمدن ظاہر نہیں کی جاتی۔ ٹیکس بچایا جاتا ہے۔ ہنڈی کو جاَئز سمجھا جاتا ہے۔ انڈر انوائسنگ کو ایک کاروباری معمول سمجھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے پیشہ ور لوگ، وکیل، صحافی، اینکر اپنی لاکھوں کی تنخواہ کیش میں وصول کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان میں وہ وکلاء اور اینکر بھی شامل ہیں جو پاکستان میں "کرپشن کے خلاف جہاد” میں مصروف ہیں۔ اس ساری صورتحال میں حکومت کی آمدن بہت کم رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے قرض لینا پڑتا ہے یا کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایمنسٹی سکیمیں چلانی پڑتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔ 

اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ لوگ ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں۔ ہماری ٹیکس دینے والوں کی تعداد جو اس وقت دس لاکھ ہے کم از کم پچاس لاکھ ہو۔ عمران خان صاحب بھی مسئلے کہ یہی تشخیص کرتے آئے ہیں۔ ان کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں تو وہ حکومت کی آمدن بڑھانے کی بات کرتے آئے ہیں۔ ٹیکس بیس بڑھانے اور آمدن کو دگنا کرنے کے وعدے کرتے آئے ہیں۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد راستہ کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی خام خیالی تھی کہ قوم ان سے اتنی محبت کرتی ہے کہ ان کے آتے ہی روپوں اور ڈالروں کی بارش شروع ہو جائے گی۔

گذشتہ آٹھ ماہ اس غلط فہمی سے باہر نکلنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ ان کی غلط فہمی تھی کہ وہ بیرون ملک پاکستان کی رقم واپس لا کر کوئی معجزہ کر دیں گے۔ جہانگیر ترین سے ہی مشورہ کر لیتے تو وہ بتا دیتا کہ یہ بطور سیاسی نعرہ تو ٹھیک ہے لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ خانصاحب کی یہ تشخیص ٹھیک تھی کہ ہمیں قرض لینے کے لئے مارا مارا پھرنے کی بجائے اپنے قومی وسائل کو بروئے کار لانا چاہیئے۔ لیکن اس کا طریقہ کار کیا ہو اس پر وہ کوئی خاطر خواہ پالیسی نہیں بنا سکے اور یوں لگتا ہے کہ اب وہ اس کی امید بھی نہیں کرتے اور مکمل طور پر معاشی ٹیکنوکریٹس کے نرغے میں چلے گئے ہیں جو روایتی انداز میں ہی معیشت چلا سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشی ماہرین کبھی بھی ان مسائل کا حل نہیں نکال سکتے کیونکہ وہ لگی بندھی تھیوریوں کی غلام گردشوں سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ موجودہ حکومت اگر مندرجہ ذیل کام کر لے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

– بالواسطہ ٹیکس (Indirect) مکمل طور پر ختم کر دے۔ کیونکہ یہ زیادتی کی بدترین شکل ہے۔ فوری طور پر اگر مشکل ہو تو ایک تدریج کے ساتھ اسے ختم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

– مختلف مدات میں ودہولڈنگ ٹیکس ختم کر دے۔ یہ ٹیکس دہندہ کو ایک سزا دینے کے مترادف ہے۔

– براہ راست ٹیکس کی شرح کم سے کم کر دے۔

– ٹیکس فائلرز (چاہے وہ ٹیکس دہندہ ہے یا نہیں) کو ملک میں وی آئی پی کا درجہ دے دے۔ یعنی وہ اگر کسی کام کے لئے بھی درخواست دیں تو ان کی درخواست کو باقیوں پر ترجیح ملنی چاہیئے۔ سفر، علاج و تعلیم کی خاص سہولتیں ملنی چاہئیں۔ معذوری کی صورت میں تاعمر پینشن ملنی چاہیئے۔

ٹیکس دہندگان کا ایسا رتبہ بنا دیا جائے کہ دوسرے لوگ ان پر رشک کرنا شروع کر دیں۔ تھانے کچہری میں ان کا خاص خیال رکھا جائے۔ ان کی شکایت پر حکومتی مشینری فوری ایکشن لے۔ اور کسی بھی عدم تعمیل کی صورت میں وہ براہ راست وزیرِ اعظم تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ وزیرِ اعظم ہفتے کے کچھ اوقات ایسی اپائٹمنٹس کے لئے مختص کریں۔

– ٹیکس فائلر جو آمدن بھی ڈیکلئیر کریں اس پر یقین کیا جائے اور قبول کیا جائے۔ قانون بنا دیا جائے کہ دس سال کے لئے کسی سے ٹیکس کی پڑتال نہیں کی جائے گی۔

– ٹیکس پڑتال اگر جاری بھی رکھنی ہو تو اس کا طریقہ تبدیل ہونا چاہیئے جس میں ٹیکس دہندہ کا وقت ضائع نہ ہو اور نہ ہی اسے کوئی افسر بلیک میل کر سکے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پڑتال کا یہ نظام ختم کر دیا جائے۔

– جو لوگ ٹیکس فائلر نہیں ہیں۔ انہیں مختلف مدات میں الگ سے جرمانہ لگنا چاہیئے۔ جیسے گاڑی یا گھر خریدنا ہے تو قیمت کے علاوہ جرمانہ بھی ادا کریں۔ مختلف کاموں میں ان کی ترجیح ٹیکس دہندہ سے کم ہو۔ اگر کوئی شخص ٹیکس دہندگی کے قابل ہے لیکن ٹیکس نہیں دیتا تو اس قانون کے دائرے میں لایا جائے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ اگر ٹیکس کی شرح معقول ہو اور بے تحاشہ بالواسطہ ٹیکسز نہ ہوں تو لوگ دل سے ٹیکس دینے پر آمادہ نہ ہوں۔ آپ جوں جوں ٹیکس کی شرح بڑھاتے جائیں گے اور بالواسطہ ٹیکس لادتے چلے جائیں گے توں توں ٹیکس چوری بڑھتی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی اعداد و شمار کا جادو چلانے سے کوئی بھی ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ ان کے لئے پرکشش ترغیبات دینی ہوں گی۔ کوئی وجہ نہیں کہ حکومتی آمدن اور ٹیکس فائلرز کی تعداد کئی گنا نہ بڑھ جائے۔ یقینی طور پر قرض بھی کم ہو جائےگا۔

اس ضمن میں اپوزیشن نے "چارٹر آف اکانومی” کی جو تجویز پیش کی ہے، حکومت کھلے دل سے اس کو قبول کر کے سارے اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر بڑے فیصلے کر سکتی ہے۔ اس میں اس کو کم سے کم سیاسی مزاحمت کا سامنا رہے گا۔ 

۲ – سیاسی استحکام
ملک میں معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام سب سے زیادہ ضروری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی بہت سے وجوہات ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے شکوے شکایات ہیں۔ قومیتوں اور صوبوں کے شکوے ہیں۔ ماضی کی بدعہدیاں اور بداعتمادیاں ہیں۔ اس سارے بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ اس سے کبھی سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔

ماضی میں سب سے سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے۔ ہمیں ماضی کے گرداب میں الجھنے کی بجائے اب آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ جنوبی افریقہ کی طرز پر "ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن” یعنی "سچائی اور مفاہمت کا کمیشن” بنایا جائے۔ اس کمیشن کے سامنے تمام سیاسی راہنما، بیوروکریٹس، جرنیل، صحافی، علماء اور بڑے تجار و پیشہ ور لوگ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کریں۔ اپنی سیاسی و مالی بے ضابطگیوں کو مانیں۔ اور آئندہ سے ان سے بچنے کا عزم کریں۔ ایک خاص ڈیڈ لائن کے بعد اگر کوئی ایسا پایا جائے جس کی کوئی ایسی بے ضابطگی پائی جائے جو اس نے چھپا لی ہو تو اسے اس جرم کی انتہائی سزا دی جائے۔ 

میں نے اس کمیشن کی تجویز 2013 میں تب بھی پیش کی تھی جب گذشتہ حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کیا تھا۔ یہ کمیشن اس لئے ضروری ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں ایک فریش اسٹارٹ چاہیئے۔ ہم ماضی کے دھندلکوں میں گم نہیں ہونا چاہتے۔ نام نہاد احتساب کے عمل کے ذریعے انتقام در انتقام کے عمل کو دوام نہیں دے سکتے۔ یہ ہمیں سیاسی طور پر آگے نہیں بڑھنے دے گا۔

پاکستان کی موجودہ حالت کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ سیاستدان ہوں، جرنیل ہوں، صحافی ہوں یا علماء۔ سب کی ذمہ داری ہے۔ کسی ایک کو سزا دینے سے انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔ بالفرض مشرف کو غداری کی سزا دے بھی دی جائے، تو ان سے پہلے جو جرنیل آئین کو پامال کرتے رہے ہیں، انہیں بخشنے کا کیا جواز ہے۔ اور جو جو سیاستدان ماضی یا حال میں جرنیلوں کے کارندے بن کر سیاست کرتے رہے ہیں، انہیں چھوڑنے سے انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے؟

پرانی حکومتوں کو تو چھوڑئیے خود حالیہ حکومت پر ہی عدلیہ اور اسٹِبلشمنٹ کی مدد سے برسراقتدار آنے کا الزام ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر کے، ان پر اظہارِ ندامت کر کے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کر کے قوم کو ایک نیا آغاز دیا جائے۔ 

ہمارے ہاں قومیتوں کے حقوق مسئلے ہیں۔ صوبوں کی تقسیم کے مسائل ہیں۔ ماضی میں حقوق دینے کے ضمن میں غلطیاں ہوئیں ان کی وجہ سے مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ اب وقت ہے کہ ان مسائل کو لٹکانے کی بجائے ایک مفاہمت پیدا کی جائے۔ سب کو کھلے دل سے ان کے حقوق دئیے جائیں۔ بقول ڈاکٹر اسرار مرحوم ہمیں بحیثیت قوم توبہ کرنی ہے۔ اللہ سے معافی مانگنی ہے۔ یہ کمیشن ہمیں قومی سطح پر توبہ اور معافی کا موقعہ دے گا۔

اس قوم میں اتنا پوٹینشل ہے کہ یہ آسمان کو چھو سکتی ہے، بلکہ آسمان بھی اس کے قدموں کی دھول ہے۔ لیکن اسے کو ماضی میں الجھانے کی بجائے آگے بڑھنے کا وژن دینے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے چھوٹے ممالک نالج اکانومی کی صورت گری کر چکے ہیں۔ ہمارے ایک ایک شہر جتنے ممالک، اور وسائل میں کہیں کم اقوام ہم سے کئی گنا زیادہ امیر ہو چکے ہیں۔ ہمیں ماضی کی مسائل کو باعزت طریقے سے دفن کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ 

تمام جماعتیں مل کر ماضی طرز پر ایک "چارٹر آف ڈیموکریسی” طے کریں اور اس پر دستخط کریں۔ اسے ایک قومی دستاویز کی حیثیت دیں۔ ماضی میں طے ہونے والا چارٹر یقیناً ایک سنگ میل تھا۔ اس کے نفاذ میں کوتاہیاں رہی ہیں۔ ہمیں اس چارٹر کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

یہ مختصر اشارات ہیں۔ ان پر پوری پوری کتابیں بھی لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل احل و عقد سوچیں اور خود کو اور اس قوم کو گرداب سے نکالنے کی تدبیر کر سکیں، ورنہ جہاں گذشتہ ستر سال ضائع ہوئے ہیں، اگلے ستر سال بھی کچھ حاصل ہونے کی توقع کرنا ممکن نہیں۔ ہم اور ہماری نسلیں ایسے ہی قرضے ڈھونڈتے مر کھپ جائیں گی۔ ایسے ہی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ جاری رہے گی۔ بحیثیت قوم ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ہمیں چار و ناچار اب ان مسائل کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے