متفرق خبریں

سب سے اچھا دودھ ۔ بکری یا گائے کا؟

مئی 10, 2019 3 min

سب سے اچھا دودھ ۔ بکری یا گائے کا؟

Reading Time: 3 minutes

ابھی بابا کوڈا کی ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا، کہ امریکہ میں کسی ڈاکٹر نے الزہائمر سے متاثرہ بکریوں کے دودھ میں کینسر اور ایڈز کا علاج “دریافت” کیا ہے۔ آخر میں بابا جی نے نتیجہ یہ نکالا کہ بکری کا دودھ پینا چونکہ سنت ہے اس لیے اس میں ایسی خطرناک بیماریوں کی شفاء رکھی گئی ہے۔ پوسٹ پے ہزاروں سبحان اللہ اور سینکڑوں شیئرز متوقع ہیں۔

بکری کا دودھ پینا سنت اس لیے ہے کہ عربوں کے پاس ہوتی ہی بکریاں یا اونٹنیاں تھیں۔ وہاں کی یہی ثقافت تھی۔ منگولیا میں گھوڑی کا دودھ پیا جاتا تھا، برصغیر میں گائے بھینسیں ہوتی ہیں سو ان کا پیا جاتا ہے۔ نبی یہاں لائے جاتے تو یہی “سنت” قرار پاتا۔

“طب نبوی” یا “دینی طریقۂ علاج” اور اس قسم کی دیگر اصطلاحات سن کر بھی مجھے اپنے مسلمان بھائی بہنوں پر ترس آتا ہے جن کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کوئی طب کی گائیڈلائنز نہیں ہیں، یہ انسانوں کی جسمانی صحت سنوارنے کو نہیں اتاری گئیں۔ ان میں سے وہی چیز لیجیے جس کے لیے ان کو اتارا گیا ہے۔ نبی (ص) کے زمانے میں لوگ حجامہ سے علاج کرتے تھے، کہیں جونکیں لگائی جاتی تھیں، کہیں جڑی بوٹیوں سے علاج چلتا تھا۔ اگر اس وقت لیپروسکوپک سرجری، ریڈیوتھراپی، یا ٹرانسپلانٹ کا رواج ہوتا تو یہی سب ”طب نبوی“ یا “مسنون علاج” ٹھہرتے! نبی (ص) نے مادی اعتبار سے وہی کچھ کیا جو اس وقت مروج تھا، ان کے پیغام کا مقصد زمانے میں رائج طب، زراعت، تجارت، صنعت و حرفت وغیرہ میں انقلاب برپا کرنا نہ تھا اور نہ ہے۔

دراصل زوال زدہ قوموں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کو شارٹ کٹ چاہئے ہوتے ہیں۔ محنت، تحقیق وغیرہ مشکل کام ہیں۔ چنانچہ دوسروں کی پکائی ہوئی دیگ گھر لا کے اس پے سنت کا ڈھکن رکھ کے جو “چَس” آتی ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ہر چیز وہاں دریافت ہو رہی ہوتی ہے، کریڈٹ ادھر لیا جا رہا ہوتا ہے کہ ”یہ دیکھیں یہ تو ہمارے پاس پہلے ہی لکھا ہوا ہے“۔

پھر اس پے مستزاد یہ سازشی تھیوریاں! ”فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے کینسر و ایڈز کا علاج منظر عام پر آنے سے روکا ہوا ہے!“ (حالانکہ کئی بڑی ملٹی بلین ڈالر حجم والی فارما کمپنیوں کے کئی سی ای اوز پچھلے تیس سال میں تحقیق کر لیں تو کینسر سے مرے ہیں، گویا انہوں نے اس کا علاج پتا ہونے کے باوجود دوسروں سے بھی چھپایا ہوا تھا اور اپنے آپ سے بھی)۔ پھر اس پے مزید ہوشربا دعوے، ”سورہ رحمن یا فلاں صورت پڑھنے سے کینسر وغیرہ کا علاج ممکن ہے۔ کلونجی کھجور سرکے وغیرہ سے دل کی شریانیں اسٹنٹ/بائی پاس کے بغیر کھل جاتی ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔

دراصل بات وہی مینٹیلیٹی کی ہے۔ محنت و تحقیق سے تو موت آتی ہے۔ ورنہ میدان تو کھلا پڑا ہے، جدید ریسرچ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کریں ایک اسٹڈی ٹرائل، اس میں یہ دعوے ثابت کریں، دنیا جیسے penicillin کو مانی تھی، جیسے polio vaccine کو مانی تھی، جیسے Imatinib کو مانی تھی (یہ تینوں عہد ساز انقلابی دریافتیں ہیں جدید طب کی)، اسی طرح آپ کے نسخے بھی مان لیے جائیں گے۔

مگر یہ تقاضا اس قوم سے کون کرے جہاں بابائے ایٹم بم سے لے کر پورے میڈیا تک کو ایک بندہ پانی سے گاڑی چلانے کے نام پے پھدو بنا لیتا ہو! وہ قوم جو پیاز باندھ کے زخم ٹھیک کرتی ہو! وہ قوم جو خود کچھ نہ کرنے پے ایمان رکھتی ہو، کبھی عمران خان سے ملک ٹھیک کرنے کی تو کبھی امام مہدی سے دنیا ٹھیک کرنے کی امید پر خود ہاتھ پے ہاتھ دھر کے بیٹھے رہنے کو نصب العین سمجھے! زوال زدہ قوموں میں یہ سب قدریں آپ ہر دور میں مشترک پائیں گے کہ ان کو اپنے تمام مسائل اور بیماریوں، کی وجہ “باہر والے” نظر آئیں گے (پولیو ویکسین والی سازشی تھیوری سے کینسر کا علاج چھپانے والی تک، بم دھماکوں سے لے کر معیشت کی بربادی تک)۔ اور ان تمام مسائل کے حل کے لئے وہ کسی شارٹ کٹ، کسی ہیرو، کسی لیڈر یا کسی مہدی کا انتظار کرتے ملیں گے اور خود نااہلی اور نکھٹو پن کی تصویر بن کر تنکا بھی توڑ کر دوہرا نہیں کریں گے۔

ڈاکٹر عزیر سرویا -Uzair Saroya

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے