پاکستان24 متفرق خبریں

مریم اور بلاول سے ڈیل کا کس نے پوچھا؟

Reading Time: 4 minutes میاں افتخار حسین نے مریم نواز اور بلاول سے پوچھا کہ کہیں کوئی ڈیل تو نہیں کر رہے؟ محسن داوڑ نے کہا کہ ہم تو غدار ہیں۔ مریم نواز بولیں کہ یہاں سارے ہی غدار ہیں

مئی 20, 2019 4 min

مریم اور بلاول سے ڈیل کا کس نے پوچھا؟

Reading Time: 4 minutes

نوشین یوسف / صحافی

پاکستان کی چھوٹی سیاسی جماعتیں حکومت کو گھر بھیجنے پر متفق ہیں لیکن بلاول اور مریم جلدی بازی نہیں چاہتے۔

یہ بات بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے منعقدہ سیاسی جماعتوں کی اس بیٹھک یا افطار ڈنر میں کھل کر سامنے آئی جس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھرپور شرکت کی گئی ۔ مریم نواز بھی پہلی مرتبہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ بیٹھیں ۔

لندن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت کے بعد، اب ان کی اگلی نسل کی جانب سے نئے میثاق جمہوریت کی طرف پیش رفت دکھائی دی ۔

اس افطار پارٹی سے حکومت گرانے کے لیے کسی بڑی تحریک کے شروع کیے جانے کے اعلان کی توقع نہیں تھی لیکن اجلاس سے اپوزیشن کی سمت کا تعین کیا جانا تھا ۔


افطار میں شریک اے این پی کے میاں افتخار نے بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو جھاڑ پلائی اور کہا کہ گزشتہ برس اگست میں ہم نے اتحاد بنایا لیکن اسے برقرار نہیں رکھا گیا ۔ ”اب ایک سال بعد ہم دوبارہ مل رہے ہیں، عوام مشکلات کا شکار ہیں، کیا ہم آج کے بعد بھی دوبارہ ایک مہینہ انتظار کریں گے۔“

اے این پی کا خیال تھا کہ ملک کے اندرونی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں ۔ ملک کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں ۔ اے این پی کے ساتھ مولانا فضل الرحمان بھی اس ہی موقف کے حمایتی تھے کہ اب حکومت کو گرانا لازم ہو گیا ہے ۔

حاصل بزنجو بھی سیاسی بیٹھک میں یہی فیصلہ چاہتے تھے کہ حکومت کو چلتا کرنے کے لیے جلد از جلد کوئی کام شروع ہو جانا چاہیے۔

بی این پی مینگل جو حکومتی اتحادی ہے اس کے سینیٹر جہانزیب جمال دینی بھی حکومت کو چلتا کرنے کے منتظر دکھائی دیے۔ جہانزیب جمال دینی کا خیال تھا کہ اگر ایک مرتبہ پھر جولائی 2018 کی طرز کا جنرل الیکشن ہوا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

شیرپاؤ کے نزدیک بھی حکومت سے چھٹکارا بہت ضروری تھا۔

حاصل بزنجو نے کہا کہ اگر اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفی دے دے تو حکومت خود بخود گر جائے گی ۔

ن لیگ کی جانب سے مرکزی نشست شاہد خاقان عباسی کے پاس تھی، وہ بھی سمجھتے تھے کہ اداروں نے جو کیا وہ غلط کیا ۔ پشتون تحفظ موممنٹ کو اسٹیبشلمنٹ سے بہت گلے تھے۔ محسن داوڑ بولے ہم تو غدار ہیں، جواب میں مریم بولیں اس کمرے میں موجود سب غدار ہیں ۔

اس گفتگو کے دوران حمزہ شہباز بالکل خاموش بیٹھے رہے۔

سیاسی بیٹھک میں چھوٹی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر آئیں کہ حکومت سے جلد چھٹکارا حاصل کرنا ہی ملکی مفاد میں ہے لیکن سب کی نظریں فیصلے کے لیے مسلم لیگ ن اور میزبان پیپلز پارٹی کی جانب تھیں ۔

مریم اور بلاول کا خیال تھا کہ اپوزیشن کو حکومت گرانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔ بلاول بولے کہ ساری جماعتوں کی باتیں ٹھیک ہیں لیکن جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔ مریم نواز بولیں عمران خان خود ایکسپوز ہو رہا ہے اسے خود بے نقاب ہونے دیں ۔

دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے صبر سے انتظار کی باتیں چھوٹی جماعتوں کو پسند نہیں آئیں، جو حکومت کو گھر بھیجنے پر متفق تھیں ۔ لیکن ن اور پی پی بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جڑا رہنا چاہتی ہیں ۔

ایسے میں میاں افتخار اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں نے مریم اور بلاول سے سوال کیا کہ کہیں آپ ڈیل تو نہیں کریں گے؟ اپ دونوں جماعتیں خود کو اس حوالے سے کلئیر کریں ۔ مریم نواز اور بلاول نے کہا کہ وہ ہرگز کوئی ڈیل نہیں کریں گے ۔ البتہ ایک بیٹھک میں جہاں سب نے کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی مریم اور بلاول نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے خاموشی اختیار رکھی ۔

تاہم جب گھر کے بڑے ہی تیار نہ ہوں تو چھوٹے کیسے تحریک چلانے کا اعلان کر سکتے تھے ۔ بس پھر گیند کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کورٹ سے نکال لیا گیا ۔ اور آئندہ اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی اور فیصلے کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمان کو سونپ دی گئی جن کی میزبانی میں عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس ہو گی جس میں حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلانے کا طریقہ کار طے کیا جائے گا ۔

تاہم اس بیٹھک سے یہ بات سامنے آگئی کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی عمران خان کا فوری دھڑن تختہ نہیں چاہتے ، وہ خان کو مزید مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ مزید غلط فیصلے کرکے بے نقاب ہوتا چلا جائے ۔ اور شائد وہ حکومت کو گرانے کا الزام سیاسی جماعتوں کے سر ڈلوانے کے مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے خاتمے کی خود وجہ بنے ۔

بعض سیاسی قائدین کی رائے تھی کہ اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حکومت مخالف تحریک کا حصہ نہیں بنیں تو وہ تنہائی کا شکار ہو جائیں گی اس لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دینا ہو گا ۔ لیکن ساتھ میں انھیں یہ بھی بخوبی علم ہے کہ اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی ساتھ نہیں دیتے تو حکومت کو گرانا ممکن نہیں ۔

اب سب کی نظریں عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس پر مرکوز ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کے حوالے سے فیصلہ وہیں ہونا ہے ۔ لیکن کم از کم بلاول بھٹو زرداری کے افطار سے حکومت کو یہ ریلیف پہنچ گیا ہے کہ ان کو گرانے کے لیے بڑی اپوزیشن جماعتیں کسی جلدی میں نہیں تاہم حکومت کو یہ ادراک ضرور ہو گیا ہے کہ اب سب اپوزیشن ساتھ ہو گئی اور اسے ٹف ٹائم لازمی ملے گا ۔

حکومت کو گرانے کے لئے کتنی بڑی اور کتنی موثر اپوزیشن تحریک چلے گی ، عید کے بعد سب واضح ہو جائے گا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے