کالم

انڈین الیکشن، توقعات اور خدشات

مئی 24, 2019 4 min

انڈین الیکشن، توقعات اور خدشات

Reading Time: 4 minutes

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا بھی پاکستان کی راہ پر چل نکلا ہے ۔ اداروں کی قومی معاملات میں مداخلت سے جو تباہی اور بربادی پاکستان میں آئی ہے انڈیا کو بھی ایک دن اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سفر شروع ہو گیا ہے منزل بھی مل جائے گی ۔

فوج الیکشن کمیشن اور بھارتی عدلیہ کی معاونت سے اندازوں کے عین مطابق بی جے پی کو عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 350 سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ کانگرس صرف 90 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر پائی ہے۔ راہول گاندھی نے شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اسے عوام کا فیصلہ قرار دیا ہے اور نریندر مودی کو مبارکباد دیتے ہوئے جنتا کا فیصلہ قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ انڈیا کے پہلے عام انتخابات ہیں جس میں سیاسی جماعتوں نے فوج ،عدلیہ اور طاقتور بھارتی الیکشن کمیشن پر بی جے پی کے حق میں جانبداری کے الزامات عائد کئے۔ انتہا پسند نریندر مودی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے دوران دو مرتبہ پاکستان مین سرجیکل سٹرائیک کا دعوی کیا اور سیاسی فوائد حاصل کئے جبکہ بھارتی فوج نے دونوں مرتبہ سرجیکل اسٹرائیک کے جھوٹے دعوی کی تصدیق کرتے ہوئے بی جے پی کو سیاسی تقویت پہنچائی۔ کانگرس اور دیگر سیاسی جماعتیں بے بسی کے عالم میں بی جے پی کو سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹے دعووں کے سیاسی فوائد سمٹیتے ہوئے دیکھتی رہیں کیونکہ بھارتی فوج ان دعووں کی تصدیق کر رہی تھی۔

بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملہ کے دعوی کو بھی بھارتی جنتا پارٹی نے الیکشن سٹنٹ کے طور پر کامیابی سے استمال کیا اور انڈین فوج کا دست و بازو بنتے ہوئے بی جے پی کے تمام راہنماوں نے اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے اپنے ناموں کے ساتھ ‘چوکیدار ‘ کے لفظ کا اضافہ کیا اس طرح بھارتی عوام کو گمراہ کیا گیا جبکہ فوج ،عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم میں فوج کا نام علامت کے طور پر استمال کرنے پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ پر انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی حمایت کرنے اور ریاستی اداروں جیسے عدلیہ وغیرہ کو دباو میں لانے کے الزامات لگتے ہیں۔ پاکستان میں فوج پر کبھی مسلم لیگ ق کبھی پیپلز پارٹی پٹریاٹ، کبھی کنونشن لیگ ، کبھی جونیجو ، کبھی نواز شریف، کبھی تحریک انصاف اور کبھی عمران خان کی حمایت اور پشت پناہی کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے آج پاکستان بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور خطے کے تمام ممالک کی معیشت پاکستان سے بہتر ہو چکی ہے۔ انڈیا میں بھی فوج نے ایک سیاسی جماعت کی حمایت شروع کر دی ہے اور ہندو انتہا پسندی کو خاموشی سے سپورٹ کیا جا رہا ہے۔

انڈین فوج مقبوضہ کشمیر سے جان چھڑانا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے بھارتی جنتا پارٹی ،الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی بتدریج حمایت حاصل کر رہی ہے ۔ بی جے پی نے موجودہ الیکشن پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے نام پر لڑے ہیں اور اپنے منشور میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

نریندر مودی کو جس طرح کی لینڈ سلائڈ فتح حاصل ہوئی ہے مستقبل قریب میں عدلیہ اور فوج کی حمایت کے زریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ پاکستانی معیشت کے جو حالات ہیں اور اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے جو الزامات ہیں اور جس طرح 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح پر انگلیاں ااٹھائی جا رہی ہیں ۔ جس طرح ملک کی مقبول سیاسی قیادت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگایا گیا ہے اور ملک میں قومی یکجہتی تباہ ہو چکی ہے ۔ پی ٹی ایم کے منطور پشتین خوف کی علامت بن چکے ہیں اور بڑھتی ہوئی پختون قوم پرستی نے حکمت سازوں کو مضطرب کر رکھا ہے۔ ان حالات میں نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاک فوج کا ردعمل کیا ہو گا؟ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے۔

پاکستان کی فوج نے بی جے پی کی کامیابی کا استقبال شاہین میزائل کے تجربہ سے کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا گھر میں اتنے دانے موجود ہیں کہ انڈیا کو فوجی طاقت سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے سے روکا جا سکے؟

بھارتی اگر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں ۔ امریکی افغانستان کی وجہ سے ناراض ہیں۔ نواز شریف کے خلاف کاروائی کی وجہ سے ملک اندرونی عدم استحکام کا شکار ہوا، چینی بھی ناراض ہو چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ میں اسٹیبلشمنٹ کے اثاثے سمجھے جانے والے کردار دہشت گرد قرار پا چکے ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔

جنرل مشرف نے چناب فارمولہ کے زریعے ادھر ہم ادھر تم کی کوشش کی تھی لیکن پراسرار ہاتھ نے وکلا تحریک شروع کرا دی اور جسٹس افتخار چوہدری ایسا بزدل جج جس نے جنرل مشرف کا پی سی او حلف قطار سے نکل کر قبول کیا تھا بغاوت کر گیا اور معاملات اس نہج پر پہنچ گئے کہ جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور چناب فارمولہ بھی ختم ہو گیا۔

مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ انڈین آئین کے مطابق طے پا گیا تو کیا جنگ ہوگی؟ یا پھر قبول کر لیا جائے گا اور اگر قبول کر لیا گیا تو پھر اتنی بڑی اور طاقتور فوج کا جواز اور اس کے کارپوریٹ مفادات کا کیا ہو گا یہ بھی ملین ڈالر سوال ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے