متفرق خبریں

آخری حد تک لڑوں گی، مریم نواز

جون 20, 2019 4 min

آخری حد تک لڑوں گی، مریم نواز

Reading Time: 4 minutes

پاکستان میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی خرابی صحت کی بنیاد پر سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے والد پر انصاف کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور وہ اس ناانصافی کے خلاف لڑتے ہوئے آخری حد تک جائیں گی۔

اس سے قبل ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر پر مشتمل بنچ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست خارج کی۔

سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری، غیر ملکی ڈاکٹرز کی رپورٹس عدالت میں پیش کی۔


خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کئی دن بدن طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ شوگر کے لیے انسولین کا استعمال کیا جاتا ہے، نواز شریف کو دل کی تکلیف ہے اور شریانوں میں بندش ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت 60 فیصد سے زائد خطرے کی حالت میں ہے۔ انجیو گرافی کے بعد نواز شریف کو مزید علاج کی ضرورت ہے۔ ذہنی تناو کے خاتمے کے لیے بھی علاج ضروری ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ مطلب یہ کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں علاج ممکن نہیں؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ دو وجوہات کی بنیاد پر علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ چھ ہفتوں میں میڈیکل ٹیسٹ کرائے، بیماریوں کی تشخیص ہو چکی۔ ڈاکٹرز کے مطابق دل کی شریانوں میں بندش بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر ہارون کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کو دل کے دورے سے بچانے کے لیے اسٹنٹس ڈالنے ضروری ہیں۔ اسٹنٹ ڈلنے کے بعد نواز شریف کے خون کی ترسیل میں بندش ختم ہو گی۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بہت اچھے ڈاکٹرز موجود ہیں پاکستانی ڈاکٹرز باہر جا کر کام کر رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ڈاکٹرز نے ہدایت دی کہ نواز شریف کا علاج وہی ڈاکٹر کریں جنہوں نے پہلے علاج کیا۔ عموماً بھی یہی ہوتا ہے کہ ایسی میڈیکل ہسٹری والا مریض علاج اپنے ڈاکٹر سے ہی کراتا ہے۔ نواز شریف کا جو علاج ہونا ہے وہ ملک میں دستیاب نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ لگ رہا ہے کہ مریض کی مرضی تو ہے لیکن ڈاکٹرز ذمہ داری نہیں لینا چاہ رہے۔

خواجہ حارث نے نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ اظہر محمود کیانی سمیت اپنے شعبوں کے ماہرین 18 ڈاکٹروں میں بیرون ملک کے ڈاکٹرز کے خطوط بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر سندھو نے نواز شریف کو 13 بیماریوں کی نشاندہی کی ہے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کہ نواز شریف دسمبر میں 70 سال کے ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کو جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہے۔

خواجہ حارث کی ڈاکٹر عاصم اور پرومشرف کے کسیز کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر کسی ملزم کو ناقابل علاج مرض لگ جائے تو اس کی طبی بنیادوں پر ضمانت دی جا سکتی ہے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بنیادی آئینی حقوق کے مطابق جب کسی ملزم کو ناقابل علاج بیماری ہو تو اسے رہا کر دینا چاہیے۔ اگر ملزم کو کینسز ہو جائے تو اس کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ عدالتی نظیریں موجود ہیں کہ سزائے موت کا قیدی بھی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کا علاج کروایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کیس میں میڈیکل گراونڈ پر ضمانت ملی۔ علاج کے لیے ڈاکٹر عاصم کا نام ای سی ایل سے بھی نکالا گیا۔ پرویز مشرف کا نام بیرون ملک علاج کے لیے ای سی ایل سے نکالا گیا۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ خیال ہے کہ جب برطانیہ سے واپس آئے تو اس دوران ای سی ایل پر ڈالا گیا۔ میری استدعا ہے کہ نواز شریف کو ضمانت دے کر بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست میں بیرون ملک جانے کی کوئی استدعا نہیں ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے تو الگ سے سماعت ہوگی، ابھی عدالت کے سامنے نہیں۔

نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ نوازشریف کو چھ ہفتوں کی ضمانت دے کر علاج کی سہولت دی گئی۔ نواز شریف چھ ہفتوں کے دوران اپنی مرضی سے علاج کرا سکتے تھے۔ چھ ہفتے کی ضمانت صرف ٹیسٹ کے لیے نہیں علاج کے لیے تھی۔

جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست میں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی استدعا کی۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی استدعا مسترد کردی تھی۔ سپریم کورٹ میں اسی طرح کی میڈیکل رپورٹس اور انہی گراونڈز پر نظرثانی اپیل کی گئی۔ سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کی درخواست مسترد کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا نوازشریف کی گزشتہ ضمانت کی درخواست پر فیصلہ کالعدم نہیں ہوا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا گزشتہ فیصلہ ابھی بھی آن فیلڈ ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریکارڈ یہ نہیں کہتا کہ نواز شریف کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ نواز شریف کی جانب طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ دو تین یا چار ہفتے کیا طبی بنیادوں پر ضمانت دی جاسکتی ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جیل میں نوازشریف کا علاج اچھا ہو رہا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ تو پھر کیا جیل میں علاج اچھا ہے اور باہر ٹھیک نہیں، یہ کہنا چاہتے ہیں؟ وہ کہہ رہے ہیں پورے ملک میں علاج موجود نہیں اس لیے بیرون ملک جانا چاہ رہے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں جیل میں علاج اچھا ہے۔ پھر تو باقی لوگوں کو بھی جیل میں ہی علاج کرانا چاہیے۔

عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر دوسری درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم کو دسمبر 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کو علاج کے لیے سپریم کورٹ نے چھ ہفتے کی ضمانت پر رہا بھی کیا تھا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے