کالم

مرد کی قبولیت ضروری کیوں

جون 28, 2019 3 min

مرد کی قبولیت ضروری کیوں

Reading Time: 3 minutes

کیا کبھی آپ نے سنا ہے خاتون نے خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے گلا دبا دیا اور لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر فرار ہوگئی؟ نہیں سنا۔؟

اچھا کبھی آپ نے یہ سنا ہے خاتون نے غیرت کے نام پر اپنے بھائی اور اس کی محبوبہ کا قتل کر دیا؟

یہ تو سنا ہی ہوگا کہ خواتین کے جرگے نے خون بہا میں بیٹے کو ونی کردیا؟

خیر یہ باتیں شائد ذہن پر بہت زور ڈالنے کے بعد یاد آئیں۔ یہ ہی بتا دیں کبھی یہ سنا ہو، آج میں سڑک پر جا رہا تھا دو خواتین نے مجھے سر سے پاوں تک گھورا اور سبحان اللہ، بسم اللہ کا ورد شروع کر دیا؟

ایک چیز تو اس معاشرے میں بہت عام ہے موٹرسائیکل سوار خواتین نے اسلحے کے زور پر ڈکیتی کی اور جاتے جاتے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار گئیں۔ کیا یہ بھی نہیں سنا؟

کس دور کے لوگ ہیں آپ کوئی معلومات رکھیں۔ یہاں خواتین شادی کے بعد شوہر کی نوکری بند کر کے اسے گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور آپ لوگوں کو کچھ یاد ہی نہیں آرہا۔

کہنے کا مقصد یہ تھا اس معاشرے کا سارا بگاڑ ان ہی لوگوں کی وجہ سے ہے جو اس کی اس کے چوکیدار بن کر خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں 51% خواتین ہیں جو شہر ہو یا دیہات ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں۔ جب کام کرنے نکلتی ہیں تو مردوں پر بری نظر نہیں ڈالتیں بلکہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنا راستہ بناتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہیں۔

برعکس اس کے آدمی جب گھر سے باہر نکلتا ہے ہر آتی جاتی پر نگاہ ڈالنا اپنا ازلی حق سمجھتا ہے۔ سٹرک پر چلتی خواتین کو یہ محسوس کروا کے ہی دم لیتاہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ یہی مرد نہ تو آفس میں کسی خاتون کو عزت دے پاتا ہے نہ ہی سڑک پر لیکن اپنی عزت گھر تک محدود کر کے نہایت مطمئن انداز میں کہتا دکھائی دیتا ہے کہ ہماری بیٹیاں گھر سے نہیں نکلتیں۔ 

ایسے ہی مردوں کو خواتین کے آزاد خیال ہونے پر اعتراض ہے۔ اس ہی مرد کو خواتین کے مغربی لباس پر اعتراض ہے کیوں کہ اس لباس میں خواتین کو وہ کس نگاہ سے گھورتا ہے ان پر کیا جملے کستا ہے وہ جانتا ہے۔ پھر یہی مرد غیرت کا علمبردار بھی ہے اور رکھوالا بھی۔

ان میں ایک خاص قسم ان مردوں کی ہے جو خالصتا اسلام کے نام لیوا ہیں ان کے ہوتے ہوئے خواتین بے پردہ پھریں ان کی غیرت کو ایسی ٹھیس پہنچتی ہے جس کو لفظ بیان نہیں کر سکتے کیوں کہ مسئلہ تو وہی ہے۔ یہ جانتے ہیں مردوں کے اس معاشرے میں ایک مرد ایک عورت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور عزت اسی خاتون کی محفوظ ہے جو سات پردوں میں ہے۔

کیا آج کا مرد یہ نہیں سوچتا کہ معاشرے کا سارا بگاڑ اس ہی کی وجہ سے ہے۔ کہیں عورتوں اور بچوں کی عزت سے کھیلتا ہے تو کہیں اسے اپنی ہی عزت پر نچھاور کر کے ونی کردیتا ہے تو کہیں غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ عورت اسے تب تک ہی اچھی لگتی ہے جب تک اپنے حق میں بولتی نہیں۔ جہاں عورت نے منہ کھولا وہاں ہی مرد کا ہاتھ کھل جاتا ہے۔

تب ہی یہ معاشرہ میل ویلیڈیشن کی نذر ہے۔ یہاں خواتین کو باہر بھی نکلنا ہے اپنا مقام بھی بنانا ہے اپنا گھر بھی چلانا ہے اتنی خودمختار خاتون ہر قدم پر مرد کی اجازت کی محتاج اسی وجہ سے نظر آتی ہے کیا پہنے، کیا نہ پہنے، کہاں جائے، کہاں نہ جائے، کس سے ملے، کس سے نہ ملے، کس سے بات کرے، کس سے نہ کرے۔

 یہ سب ایک مرد ہی طے کرتا نظر آتا ہے اور اگر خواتین یہ سب نہ مانیں تو مرد کی انا کا جنازہ نکل جائے گا اور آج کے مرد پر تو خواتین کی ہزاروں زندگیاں، ہزاروں خواہشیں، ہزاروں مرضیاں، ہزار بار قربان !

عورت کو اپنے بستر کی زینت سمجھنے والا مرد میرا جسم میری مرضی جیسی چھوٹی سی بات ہی نہیں سمجھ پایا توآزادی اور خودمختاری جیسی باتیں کیا سمجھے گا!

خدارا! خواتین کو اور ان کی خواہشات کو دبانا بند کریں۔ اپنے آپ کو تبدیل کریں اپنی مجرمانہ حرکتوں کا احتساب کریں۔ آپ بدلیں گے زمانہ بدل جائے گا۔ جب آپ اپنی گندی نظر کو روکیں گے تو آپ معاشرے کو اس قابل سمجھنے لگیں گے جہاں خواتین اپنی مرضی کے مطابق رہ سکیں گی، چل پھر سکیں گی، کام کر سکیں گی۔

مغرب نے یہ بات سیکھ لی اور عورت کو برابر مقام دے دیا۔ عورت کسی ساحل پر بکنی میں بھی ہو تو مرد لاتعلق گزر جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کے مرد کس اسلام کے پیرو کار ہیں؟ یہ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے یا جاننا چاہتے ہی نہیں۔ 

نوٹ : یہ بلاگ ان سب مردوں کے نام ہے جو اس معاشرے کے بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔ باقی چند گنے چنے مرد اس کو دل پر نہ لیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے