کالم

"…. ہائے نی جرنیل نی "

اگست 20, 2019 6 min

"…. ہائے نی جرنیل نی "

Reading Time: 6 minutes

نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہوئی تقریباً تائب ہی ہو چکی تھی، جب چمن میں دیدہ ور کا نزول ہوا۔ بظاہر جرنیل کی موجودہ عہدے پر تقرری کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بھلا کرپٹ حکمران ایسے درویش صفت کا وجود کیونکر گوارا کرتے۔ مگر بھلا ہو چکری چوہدری کا جس نے ایک بار پھر میاں صاحب کو تھپکی دی کہ ” میاں صیب گھبران دی کوئی لوڑ نئیں” اور میاں صاب ڈیش لگنے کے بعد چکری کی جانب منہ کر کے یہ شعر گنگناتے پائے گئے۔

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں

جرنیل نے کمان سنبھال کر کچھ عرصہ نہایت احتیاط سے حالات کا جائزہ لینے میں گذارا اور اپنے خوبرو پیشرو کی "سکیموں” کو جاری رکھنے پہ اکتفا کیا۔ اس کی اسی سادگی سے نواز شریف کو خوش فہمی ہوئی کہ جرنیل کو پٹایا جا سکتا ہے- چنانچہ ہریسے اور پائے سے لبریز ایک دعوت میں وزیراعظم نے سرسری سے لہجے میں ڈان لیکس، پانامہ وغیرہ وغیرہ کا ذکر کر ڈالا۔ جرنیل نے نہایت وقار سے یہ تاریخی فقرہ کہا "سوری سر، مگر قانون اپنا رستہ خود بنائے گا”

تین مرتبہ کا گھاگ وزیراعظم اچھی طرح سمجھتا تھا کہ پاکستان میں قانون اپنا رستہ "خود” کیسے بناتا ہے- چنانچہ اس نے اپنے قریبی رفقاء کا اجلاس بلا کر اس میں یہ تاریخی فقرہ کہا ” لگدا اے، اسی فیر ڈیش گئے آں” شہباز شریف کہ بلا کا کوتاہ فہم ہے، ڈیش کو جدے سمجھا اور بھاگ کر پی آئی اے کی ٹکٹیں پکڑ لایا۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے، بلکہ کئی ایک تاریخیں ہیں جو لیگی راہنما اور کارکنان نیب، تھانے اور کچہریوں میں بھگتاتے پھر رہے۔

معیشت کی رونقیں دیکھ کر جرنیل کو ہمیشہ حیرانی ہوتی تھی کہ ان چوروں کی حکومت میں عوام کیونکر گلچھرے اڑاتے پھر رہے۔ ایک صبح ناشتے پر اس نے وزیر پانی و بجلی کا اعلان پڑھا کہ بجلی کی پیداوار دگنی ہو گئی ہے- جرنیل نے فوراً اپنے گھر کی وولٹیج چیک کرائی اور بے ساختہ اس کے لبوں سے سرد آہ نکل گئی۔ اس کے بدترین اندیشے کی تصدیق ہو چکی تھی۔ بجلی بدستور 220 وولٹ آ رہی تھی جبکہ پیداوار اگر دگنی ہوئی تھی تو اسے 440 وولٹ ہونا چاہیے تھا۔

ایسے ذہین و فطین جرنیل سے حقیقت بھلا کب تک چھپی رہ سکتی تھی۔ وہ جلد ہی جان گیا کہ چوروں نے پوری کی پوری معیشت مصنوعی طور پر استوار کر رکھی تھی۔ پٹرول، بجلی، گیس، اشیائے خوردونوش سب مصنوعی طریقے سے سستی تھیں۔ ڈالر مصنوعی طور پر کنٹرول میں تھا، معیشت کی شرح نمو مصنوعی طریقوں سے اڑانیں بھرتی پھر رہی تھی۔ عوام کو یہ حقیقت صاف الفاظ میں بتانے کا ابھی موقع نہ تھا، اس لئے جرنیل نے ایک تقریب میں یہ تاریخی فقرہ کہا ” معیشت کی حالت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے” پھر جو ہوا وہ بھی تاریخ ہے بلکہ کئی تاریخیں ہیں جو عوام یوٹیلیٹی بلز، انکم ٹیکس، ہرجانہ، سرچارج، ڈیوٹی اور کٹوتی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ ڈاکو زرداری اور چور نواز شریف کے دور میں عوام کو صوبائی خودمختاری، بنیادی حقوق، مساوات، اظہار رائے اور دیگر اسی نوعیت کے خرخشوں میں الجھا دیا گیا تھا۔ لوگ صوبوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کا مقابلہ کرنے لگے تھے۔ غضب خدا کا، ملک کے دفاعی بجٹ پر سوال اٹھائے جانے لگے تھے۔ کراچی کے باسی تاحال لندن کی جانب منہ اٹھا کر اپنے کسی بچھڑے بھائی کو یاد کرتے تھے، اندرون سندھ میں بھٹو مرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بلوچی تو خیر تھے ہی شرپسند، یاللعجب اب تو گلگت بلتستان اور فاٹا کے عوام بھی یکساں حقوق کا شیطانی مطالبہ کرنے لگے تھے۔ اوپر سے شریفوں نے عوام کو ترقیاتی کاموں، غیر ملکی سرمایہ کاری، جی ڈی پی جیسے شیطانی چکروں میں الجھا رکھا تھا۔ ظلم خدا کا، مرکز کمزور اور صوبے بااختیار بنا دیے گئے تھے۔ آپ ہی ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر کہئے "کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں”

یعنی اب اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں عوام یہود و ہنود کے ممالک میں رائج سہولیات کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ ایسے دگرگوں حالات میں ملک کو ایک نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ کسی ایسے لیڈر کی جو جرنیل کے وژن کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ مگر ایسا کون ہو سکتا تھا۔

بالآخر یہ الجھن بھی دور ہوئی اور جرنیل کی وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم تھی، ایک ستر سالہ نوجوان پر آ ٹھہری۔ ایماندار ایسا کہ بیوی بھی پیسے اس کے دوستوں کے اکاؤنٹ میں بھجواتی ہو۔ ہینڈسم اتنا کہ بوٹوکس کے بعد ستر سالہ بزرگ کی بجائے انہتر سالہ ٹین ایجر دکھائی دے۔ حسن اتفاق کہ انہی دنوں اس گرگ باراں دیدہ نوجوان کی ملاقات کی درخواست جی ایچ کیو پہنچی۔ بقول فلمی شاعر

یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے

مگر اس پرانے سلسلے میں نیا موڑ آیا جب محمود و ایاز کا پہلی بار آمنا سامنا ہوا۔ کپتان کی موٹیویشنل تقریر سن کر جرنیل مبہوت رہ گیا۔ گوکہ اسے بانوے، میں، کرکٹ، میں، ورلڈ کپ، میں، شوکت خانم، میں، نمل، میں، پھر میں اور میں اور مزید میں کے علاوہ کچھ خاص سمجھ نہ آئی مگر ہیرے کی قدر جوہری اور کوئلے کی قدر بیوپاری ہی جانتا ہے- جرنیل کو افسوس ہوا کہ اس کے پیشرووں نے، گوکہ فنی مہارت میں وہ بھی کم نہ تھے، اس گوہر نایاب کو محض ٹوائلٹ پیپر کی طرح استعمال کیا اور پھینک دیا۔ اور اس وقت تو جرنیل کو اپنے انتخاب پر حقیقی معنوں میں فخر محسوس ہوا جب اس سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے کپتان نے آہنی لہجے میں یہ تاریخی فقرہ کہا۔ "سر، بھیک مانگنے پہ میں موت کو ترجیح دوں گا” اور ساتھ ہی جرنیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر واپسی کا کرایہ مانگ لیا۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے بلکہ کئی ایک تاریخیں ہیں جو آئی ایم ایف، سعودیہ، امارات، چین، امریکا، قطر وغیرہ وغیرہ نے اپنے بہی کھاتوں میں درج کر رکھی ہیں۔

عدالت، معیشت اور سیاست سے ہاتھ جھاڑ کر جرنیل بالآخر اس کام کی طرف متوجہ ہوا، بظاہر جس کی اسے تنخواہ ملتی ہے- اس دور بیں، دور اندیش عبقری نے جلد ہی اندازہ کر لیا کہ روایتی جنگ اور اسلحے کی دوڑ میں اپنے روایتی حریف کا مقابلہ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے- گوکہ ڈاکو اور چور ہر سال دفاعی بجٹ میں مصنوعی طریقے سے پندرہ بیس فیصد کا اضافہ کرتے چلے آ رہے تھے، مگر صبح و شام بڑھتی دفاعی ضروریات کیلئے یہ ناکافی تھا۔ کہتے ہیں بہترین جرنیل وہی ہے جو اپنی مرضی کے میدان میں جنگ لڑتا ہے- جرنیل نے بھی دشمن کو شکست دینے کیلئے جنگ کے روایتی اور فرسودہ طریقوں سے اوپر اٹھنے کا فیصلہ کیا اور اپنے لئے ففتھ جنریشن ہائبرڈ وارفیئر کا میدان منتخب کیا۔ اپنی دلیر اور جانباز ٹویٹری سپاہ کی قیادت اس نے ایسے ہیرے سالار کے سپرد کی جو عسکری امور کے علاوہ دنیا کے ہر موضوع پر مہارت رکھتا ہے- صرف تین برس میں مٹھی بھر سپاہیوں نے شجاعت کی وہ تاریخ رقم کی کہ بدروحنین کی آن لائن یاد تازہ ہو گئی۔ آج دنیا کی طاقتور ترین افواج کی سپاہ تو کیا جرنیلوں میں بھی یہ ہمت نہیں کہ ٹویٹر پہ اپنا ہینڈل بنا سکیں۔ ساری دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ یہ میدان پاکستان کے بہادر آن لائن حوالداروں کا ہے اور انہی کا رہے گا۔ یہاں روز کشتوں کے پشتے لگتے اور روزانہ پیش ٹیگ اور ٹرینڈز کے انبار لگا کر نئی سے نئی تاریخ رقم ہوتی ہے- الحمدللہ آج پاکستان آن لائن ناقابل تسخیر ہو چکا ہے-

کشمیر کو بڑے ہماری شاہ رگ فرما گئے تھے اس لئے ناممکن تھا کہ جرنیل اسلاف کی روایات سے روگردانی کر کے کشمیر کو نظرانداز کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ستر سال سے بھارت نے ایک بدنام زمانہ آرٹیکل تین سو ستر کے تحت کشمیر ہڑپ کر رکھا تھا، اور ستر سال سے پاکستانی سول و ملٹری قیادت اس قانون کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود اس کا کچھ بگاڑ نہیں پا رہی تھی۔ جرنیل کے مارخوروں نے کہ جن کی قیادت اس نے ایک اور ہیرے یعنی سپریم کورٹ سے ایوارڈ یافتہ جرنیل کے سپرد کر رکھی تھی، اندروں اندر یا باہروں باہر ایسا چکر چلایا کہ مودی نے کوئی چوں چرا کیے بغیر اپنے ہاتھوں سے یہ قانون ختم کر ڈالا۔ جرنیل کی عاجزی اور بے نیازی پہ قربان جاؤں، اس تاریخی فتح کا وہ کریڈٹ لینے کو بھی تیار نہیں۔

کل یہ خبر سنی کہ جرنیل کو صرف تین سال کی ایکسٹنشن دی گئی ہے تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور کلیجہ فرط غم سے منہ کو آنے لگا۔ ایسا گوہرِ نایاب اور زمانے کی ایسی ناقدری کا شکار۔ پاکستان نہیں دنیا بھر کی افواج کا کوئی جرنیل بھلا صرف تین برس میں ان مذکورہ بالا خیرہ کن کامیابیوں کا عشر عشیر بھی حاصل کر سکتا ہے؟ نہیں بخدا نہیں۔ کپتان کی ہینڈسم ایمانداری سے چوک ہوئی ہے-

اس احقر کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ جرنیل کو فوراً، ابھی کے ابھی "فیلڈ مارشل” کا خطاب دیا جائے۔ پچھلے فیلڈ مارشل کی مثال سے آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارے فیلڈ مارشلوں کیلئے جنگ لڑنا یا جیتنا قطعی ضروری نہیں ہے۔ جبکہ فسوں خیز جرنیل نے تو ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار تن تنہا ایجاد کر کے، اکیلے لڑ کر، اکیلے ہی جیت بھی رکھی ہے- قوم کے لیے اس کے اس لازوال کارنامے کا یہ کم سے کم صلہ ہوگا۔ اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

حق کماحقہ ادا کرنے کیلئے قوم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جرنیل کو فوراً تاحیات ایکسٹنشن دی جائے تاکہ وہ مستقبل کے اندیشوں سے بے نیاز ہو کر کامل یکسوئی کے ساتھ اپنی ڈاکٹرائن پہ عملدرآمد کروا سکے۔

اللہ پاک جرنیل کا سایہ ہمارے سروں پہ سلامت رکھے۔ یا پھر کم سے کم ہمارے سروں ہی کو سلامت رکھے۔ آمین ثم آمین

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے