پاکستان پاکستان24

”جج مشکوک مگر فیصلے پر اثر نہیں“

اگست 23, 2019 2 min

”جج مشکوک مگر فیصلے پر اثر نہیں“

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے لیے دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ویڈیو اور آڈیو کو فوجداری قانون کے مطابق عدالت میں ثابت کیے بغیر تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ویڈیو کو عدالتی ثبوت بنانا 20 مراحل پر مشتمل طویل اور پیچیدہ قانونی طریقہ کارہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جج ارشد ملک کی مبینہ اعترافی ویڈیو سے نواز شریف کیس فیصلے پر اثر نہیں پڑتا اور اس کے لیے ہائیکورٹ بھی مقرر کردہ قانونی طریقہ کار ہی اپنائے گی تاہم جج ارشد ملک کے کردار نے ہزاروں ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد مشکوک کردار کے مالک ہیں اور اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ارشد ملک کو واپس لاہور ہائی کورٹ کی ماتحت عدلیہ میں بھیج کر ان کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو ایڈٹ کر کے بدلا جا سکتا ہے اس لیے جب تک اس کا فرانزک تجزیہ نہ کیا جائے تب تک قانون کے مطابق عدالت میں اس پر بطور ثبوت انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات میں کسی بھی آڈیو یا ویڈیو ٹیپ کو شک و شبے سے بالاتر ہو کر ثابت کیا جانا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک دن قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ارشد ملک کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کرتے ہوئے ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی سفارش کی تھی۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ جولائی میں مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا سنانے والے نیب عدالت کے جج اور نوازشریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھائی تھی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ جج کی ویڈیو پر تین وکیلوں نے درخواست گزار بن کر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جن میں سے دو نے ویڈیو دکھانے پر مریم نواز کے خلاف کارروائی کی استدعا کی تھی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے