کالم

’امریکا، طالبان اور ہم‘

ستمبر 10, 2019 3 min

’امریکا، طالبان اور ہم‘

Reading Time: 3 minutes

اسی موضوع پر گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور افغان حکومت طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ یہ سارا عمل محض صدر ٹرمپ کے دباؤ کی وجہ سے آگے بڑھ رہا تھا۔ طالبان کی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر لینے والی دوراندیشی اور حکمت عملی نے ایک بار پھر افغانستان کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے-

امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل کینیتھ میکنزی کا حالیہ دورہ امن معاہدے کی ناکامی کے بعد کی حکمت عملی ترتیب دینے کے سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب معاملات خلیل زاد کے ہاتھ سے نکل کر مائیک پومپیو اور پینٹاگون میں بیٹھے جرنیلوں کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ جنرل میکنزی سترہ رکنی وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچے۔ یہاں انہوں نے وزیر دفاع، جوائنٹ چیف آف سٹاف، نیول چیف، ائر چیف اور چیف آف آرمی سٹاف سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔

آئی ایس پی آر نے جو بھی پریس ریلیزز جاری کی ہیں ان سے زیادہ اہم جنرل میکنزی کا وہ بیان ہے جو انہوں نے پاکستان سے جانے کے بعد بگرام ائر فیلڈ پر دیا ہے۔

’ہم خاموش بیٹھے انہیں ( طالبان کو) کسی نام نہاد فتح کی طرف پیش قدمی کرتا نہیں دیکھتے رہیں گے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا زمینی کارروائیاں بھی کی جائیں گی یا فضائی حملوں پر ہی انحصار ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم یہاں ٹوٹل سپیکٹرم کی بات کر رہے ہیں۔ جو بھی اہداف ہمیں حاصل ہوں، جن اہداف پر بھی قانونی اور اخلاقی طور پر حملہ کرنا بنتا ہو ہم ان تمام اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔‘

ان کا یہ بیان طالبان کے اس ردعمل کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے امن معاہدے سے انکار کی صورت میں مزید امریکی جانوں کے ضیاع کی دھمکی دی ہے۔

میکنزی کے دورہ پاکستان کا مقصد ممکنہ بڑے فوجی آپریشن کے لیے ہماری حمایت حاصل کرنا تھا۔ ہم انکار کو کفرانِ نعمت سمجھتے ہیں اس لئے آپ مستقبل قریب میں ہمارے بہت سے دفاعی تجزیہ نگاروں اور پرو اسٹیبلشمنٹ لکھاریوں کو الٹی قلابازی کھا کر طالبان کی مذمت اور ان کی بے بصیرتی کا ماتم کرتا دیکھیں گے۔

اس سے پہلے سنہ 2010 میں امریکی انتظامیہ میں یہ سوچ پیدا ہوئی تھی کہ افغانستان سے فوجی نکال کر اپنی توجہ مشرق وسطیٰ پر مرکوز کی جائے۔ اس کے بعد سنہ 2015 میں بارک اوباما فوجیں واپس بلانے کا اعلان بھی کر چکے تھے جب طالبان نے قندوز پر قبضہ کر کے امریکہ کو اپنا قیام طویل کرنے پر مجبور کیا۔ یہ اب تیسری مرتبہ امریکی جاتے جاتے پلٹ رہے ہیں۔

جنگی فراست، تدبر، دلیری اور معاملہ فہمی کے جس لیول پر طالبان فائز ہیں اللہ انہیں ہی نصیب کرے۔ جہاں تک ہمارا سوال ہے تو مال دیکھ کر ہمارا موڈ بنتے دیر نہیں لگتی اور اس بار تو بغیر مال دکھائے ہی ہمارا موڈ بنانے کا پورا اہتمام کر لیا گیا ہے۔

اب غالباً افغان صدارتی انتخابات تک فریقین اپنی اپنی طاقت مجتمع کرنے اور حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف رہیں گے۔ اکتوبر سے افغانستان میں لڑائی کا سیزن ویسے تو آف ہو جاتا ہے مگر اس ایک مہینے میں شاید دونوں جانب سے اپنی طاقت دکھانے کی کوشش ضرور ہو گی۔

امریکی صدر نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس مرتبہ اپنی اسٹیبلشمنٹ اور افغان حکومت کے تحفظات پس پشت ڈالتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا تھا۔ ہمارے مجاہدین کے اندر کا کیڑا مگر انہیں چند ہفتے بھی آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا ورنہ اس معاہدے کے سب سے بڑے بینیفشری طالبان ہی تھے۔

اب اللہ افغان عوام کی جان و مال کی حفاظت فرمائے۔ چالیس برس سے تباہی و بربادی کا شکار معاشرے کو ہم ہمیشہ اپنی تزویراتی حکمت عملیوں کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں، اسی لیے ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ افغان عوام پاکستان اور طالبان کے اتنے مخالف کیوں ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے